Posts

Showing posts from February, 2017

"ایک مسجد اور اک مسلم امام کی تلاش"

                                                                                تحریر:کنور اسلم شہزاد                                 میری خوش قسمتی مسلمان گھرانہ میں پیدا ہوا والدین نے نام رکھ دیا اسلم یعنی فرمانبرداررکھا اب پتہ نہیں   والدین نےاپنےفرمانبردار رہنے کیلئےرکھایااللہ تعالی کافرمانبردارسمجھ نہیں آیا والدین بھی کیا نعمت ہوتے ہیں جب حیات ہوتے ہیں تو خدمت نہیں کرتے اور انکے چلے جانے کے بعد اور خاص طور پر میت پر،قبر،سوئم اور چالیسویں پر اولاد اور رشتے داروں سمیت سب کو یاد آ جاتا ہے ابا جی کو چنے کی دال کا حلوہ بہت  پسند تھا ۔ آم بہت کھاتے تھے اور گاجر کا حلوہ تو جان تھی فاتح میں یہ ضرور رکھنا ورنہ ماموں جان کی روح کو تکلیف ہوگی زندگی میں توکسی نے پوچھا نہیں مگرمرتے وقت،امام مضامن،سورہ یسین اورعہد نامہ ضرور ساتھ یاد رہتا ہے ۔ ابا جی بتاتے ہیں شہد ممانی جان نےاذان نانا جان نے دی تھی جبھی شریر ہے امی جان کہتی تھیں ۔ اذان ہوتی تو گھر والے کہتے اللہ اللہ ہو رہی ہے چپ رہتے ہیں اباجی،بھائی صاحب کی انگلی پکڑ کرمسجد جان

چھوٹے کی کہانی

Image
                                        تحریر:کنور اسلم شہزا میری بائیک خراب ہو گئی اور جانا بھی ضروری تھا کیا کروں سمجھ نہیں آ رہا تھا مرتا کیا نہ کرتا مکینک کی دوکان کی طرف چل دیا۔  السلام و علیکم کیا حال ہے استاد ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں ٹھیک ہوں؟  کیا ہوگیا استاد پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ۔ ارے لمبو ادھر آ آیا استاد دیکھ بھائی کی گاڑی کوچھا استاد چھوٹا پانہ لیکرگاڑی کھولنے لگا ۔ استاد سمجھ نہیں آ رہا تم آجاؤ استاد نے چپل پھینککے ماری مرگیا استاد لمبو چھوٹے کی آواز آئی کمبخت لگا نہیں ہے اور چیخ اتنا رہا ہے ۔ استاد نے آواز لگائی 10 کا پانہ لا استاد یہ لو گیئر بکسس کھول اسٹارٹ کر خاک اسٹارٹ ہوگی ۔ کیوں استاد لمبو بولا اک زور کا تھپڑ پڑا استاد چھوڑو کیوں مار ریے ہو بچہ ہے بھائی اسکی بھلائی کے لیئے کیا مطلب بھائی مجھے اسکو آگے لے کر جانا ہے لڑکا اچھا ہے بس پالش کی ضرورت ہے غریب کا بچہ ہے میں چاہتا ہوں یہ بھی میری طرح کا کاریگر بنے نام کرے میرا اک بات بتاؤ گے ہاں ہاں پوچھو آپ یہ بتاؤ کتنے شاگرد ہیں تمھارے ارے صاحب کیا

انصاف کا قتل دیکھا

Image
                                                             "آج انصاف کو قتل ہوتے دیکھا"  تحریر" کنور اسلم شہزاد                                                        ٹی وی۔اخبارات،رسائلو جرائد اور سوشل میڈیا پر بس اک ہی خبر"الطاف حسین" غدار ہے،ملک دشمن ہے را کا ایجنٹ" ہے۔پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا دیا۔بند کر دو،ریڈ وارنٹ نکال دو،زباں بند کر دو،لٹکا دو،پاکستان لاؤ ا پھانسی پر چڑھا دو۔آخر کیوں یہ سب کہا جا رہا ہے،سمجھ نہیں آ رہا تھاتو سوچا دیکھوں تو یہ کون شخص ہے کیوں ایسا کہتا ہے،کہتا ہے یا حالات و واقعات کی بنیاد پر ایسا کہ رہا ہے اور پھر سوچا "GOGGLE" جا کر  دیکھا جائے،گیا دیکھا تو ایسا نہ تھا،سیاق و سباق کو ملا کر دیکھا نہیں گیا تھا ابھی سوچ رہا تھا اور دیکھوں؟ ٹی- وی دیکھ رہا تھا صابر شاکر،سمیع اور دانشور بھٹی صاحب جو علم و دانش کا منبع ہیں ایک سلائڈ نظر آئی سپرم کورٹ کے چیف جسٹس محترم ساقب نثار صاحب فرما رہے تھے ہم قوم کو مایوس نہیں کریں گےعدل ہوگا۔ پاکستان کی عدالت نے طیبہ کیس کا از خود نوٹس لے

منزل نہیں راہنما چاہیے

Image
منزل نہیں راہنما چاہیے ( تاریخ اور دلیل کے ساتھ )            قسط اول"تحریر کنور اسلم شہزاد تاریخ کی ابتدا آدم سے ہوتی ہےاللہ نے انسان کو خلیفہ نامزد کیا یعنی پہلے راہنماء کا انتخاب کیا گیا  پھرآدم کی نسل بڑھانے کا طریقہ کار طے کیا گیا یعنی حوا کا انتخاب کیا گیا اور اسطرح تخلیق انسان کا وجود ہوا   آدم نے ایک نظریہ انسانیت متعارف کروایا یعنی آدم دنیا کے پہلے راہنما ہوئے اور انہوں نے نظریہ کو جنم دیا ۔ تاریخ کو دیکھتے ہوئے طے ہو گیا کہ راہنماء یی نظریہ کو جنم دیتا ہے اور پھر اپنے نظریہ کو متعارف کرانے کے لئیے افراد کی تلاش کرتا ہے اور اپنے قریبی حلقہ میں اپنے نظریہ کی تشہیر کرتا ہے اور لبیک کہنے والے افراد پر نظر رکھتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کتنے افراد اسکے قریب آئے ہیں اور پھر جس شخص میں جو صلاحیت ہوتی ہیں وہ کام انکے سپرد کر دیا جاتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کتنے افراد آئے اور کتنے واپس چلے گئے اور پھر رہ جانے افراد جنکو وہ سمجھتا ہے صرف یہ افراد ہیں اور پھر اپنی تحریک کا آغاز کرتا ہے ۔ نظریہ دینے والا جب دیکھ لیتا ہے لوگ ا

تاریخ کراچی

Image
                                             تاریخ کے جھروکوں سے                         تحریر:کنور اسلم شہزاد                                                                             تاریخ کے جھروکوں سے ! بھول گئے کیا ہم بھول گئے ۔ تاریخ کراچی بھول گئے ۔ مجھے یاد ہے ۔ کراچی کی تاریخ یورپ اور عرب کے دور میں شروع ہوئی ۔ محمد بن قاسم نے 712ء میں دیبل پر حملہ کیا تھا اسوقت کراچی کے چند علاقے منوڑا ،دیبل شامل تھے اور یہ دیبل کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ کولاچی کیونکہ مسقط اور بحرین کے قریب تھا اس لئے1772 میں اسکو تجارت کے لیے منتخب کیا گیا اور اسطرح یہ تجارتی شہر میں تبدیل ہو گیا ۔ لوگوں کو شاید یہ معلوم نہیں اور وہ لوگ جو کہتے ہیں ہم سندھی ہیں ان کو شاید یہ معلوم نہیں ۔ 1775  تک کولاچی خان آف قلات کی مملکت کا حصہ تھا اور جب سندھ اور قلات کے درمیان جنگ ہوئی اور سندھ نے کراچی پر قبضہ کر لیا ۔ کراچی بندرگاہ کی وجہ سے تجارتی شہر میں تبدیل ہو چکا تھا اور اسکی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہو چکا تھا ۔ انگریز اس خطہ کی اہمیت سے واقف تھا اسل

بانی و قائد محترم الطاف حسین بھائی کےساتھ گزرے لمحات

Image
تحریر: کنور اسلم شہزاد ایک دن سوچا بھائی سے ملا جائے،رات کے کوئی 10 یا 11بجے ہونگے،بتایا بھئی سے ملنا چاہتا ہوں  فورا پیغام آیا بھائی بلا رہے ہیں۔سلام کیا بھائی نے جواب دیا،بھائی سے پہلی ملاقات اکیلے میں۔ یقین نہیں آرہا تھا،الطااف بھائی کے سامنے ہوں۔ کچھ دیر بعد بھائی نے سگریٹ جلایا میری طرف دیکھا کہنے لگے مولانا سگریٹ پیتے ہو۔ میں نے جھوٹ بولا نہیں بھائی فورا بھائی نے کہا جھوٹ نہیں بولتے ہیں میں حیران رہ گیا ۔ بھائی کو کیسے پتہ میں سگریٹ پیتا ہوں پہلی ملا قات ہے۔سگریٹ نکالی کہنے لگے یہ لو پیو میں نے منع کیا کہنے لگے میں کہ رہا ہوں،۔۔۔ بھائی گفتگو کر رہے تھے یعنی فکری نشت ہو رہی تھی وقت کا پتا ہی نہیں چلا ۔  کونے کا کمرہ صبح ہو گئی چائے بنا کر بھائی نے پلائی، پراٹھا۔ پاکستان میں ایسا بھی قائد ہوتا ہے سوچ رہاتھا،پھرعباسی شہید میں عیادت کے لیے گیا ۔ سوال تم کیسے تم تو فلاں جگہ رہتے  حیران  ہوا ۔بھائی سب جانتے ہیں ۔  مختلف جلسوں کی نظامت کے دوران بھائی کی صحبت ملتی رہی۔ بھائی کو ہمارے علاقے میں آنا تھا گاڑی جو بھیجی تھی خراب ہو گئی۔ بھائی کو بتلایا کہنے لگے میں ٹیکسی میں آ