منزل نہیں راہنما چاہیے

منزل نہیں راہنما چاہیے ( تاریخ اور دلیل کے ساتھ )          

 قسط اول"تحریر کنور اسلم شہزاد


تاریخ کی ابتدا آدم سے ہوتی ہےاللہ نے انسان کو خلیفہ نامزد کیا یعنی پہلے راہنماء کا انتخاب کیا گیا 


پھرآدم کی نسل بڑھانے کا طریقہ کار طے کیا گیا یعنی حوا کا انتخاب کیا گیا اور اسطرح تخلیق انسان کا وجود ہوا

 
آدم نے ایک نظریہ انسانیت متعارف کروایا یعنی آدم دنیا کے پہلے راہنما ہوئے اور انہوں نے نظریہ کو جنم دیا ۔


تاریخ کو دیکھتے ہوئے طے ہو گیا کہ راہنماء یی نظریہ کو جنم دیتا ہے اور پھر اپنے نظریہ کو متعارف کرانے


کے لئیے افراد کی تلاش کرتا ہے اور اپنے قریبی حلقہ میں اپنے نظریہ کی تشہیر کرتا ہے اور لبیک کہنے والے


افراد پر نظر رکھتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کتنے افراد اسکے قریب آئے ہیں اور پھر جس شخص میں جو


صلاحیت ہوتی ہیں وہ کام انکے سپرد کر دیا جاتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کتنے افراد آئے اور کتنے واپس چلے


گئے اور پھر رہ جانے افراد جنکو وہ سمجھتا ہے صرف یہ افراد ہیں اور پھر اپنی تحریک کا آغاز کرتا ہے ۔


نظریہ دینے والا جب دیکھ لیتا ہے لوگ اس کی بات کو سن رہے ہیں تو پھر اپنے لوگوں کی تربیت کا عمل 


شروع کرتا ہے اور دیکھتا ہے کون اس کے نظریہ کو سن رہا ہے،کون جان رہا ہے اور کون مان رہا ہےاور

 کون صرف اسکی شخصیت کی بنیاد پر اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے شامل ہوا ہے اور کون ہر مرحلے پر 


اسکے ساتھ رہا اور تکمیل تک ساتھ رہےگا۔ ان پر ہی اعتماد کرتا ہے اس دوران آنے جانے  کا سلسلہ بھی


جاری رہتاہے اور پھر نظریہ تحریک ،انجمن یا اداراہ کی حیثیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اسی دوران نظریاتی


 افراد مختلف معاملات طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور نظریہ دینے والا ان پر نظر رکھتا ہے۔


 اسی دوران طاغوتی قوتیں ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہیں ان افراد کی انفرادی کمزوریوں کو بغور دیکھتا

 
 جاتا ہےاور ان کو ابھار کر ان کو خریدا جاتا ہے پھر بھی نہ مانیں تو تشدد کا راستہ اختیار کیا جاتاہے،دولت،عورت 


مختلف طریقے اختیارکیے جاتے ہیں۔


 آدم نے نظریہ کا آغاز کیا اور اسطرح نظریہ دینے والا اور نظریہ وجود میں آیا پھر سلسلہ چلتارہا اور پھر نظریہ دینے 


والے نے رہن سہن لباس، ہیتھیار درندوں سے بچنے کے لیے آگ ،تیر ،پتھر سے پتھررگڑنے سے آگ پیدا ہونے والے

 
اور بچاؤ کے طریقے بتائے اور طے ہوا خوراک ،رہنے کے لیے خطہ ۔ پہنےکے لیے لباس اور نفس انسانی یعنی فطرت 


کی تکمیل کے لیے افزائش نسل کے لیے شادی کے طریقہ کار کاانتخاب کیا ۔


نظریہ دینے والے نے بتایا کہ اس دوران کس کس طرح کی مشکلات آتی رہیں گی اور اس سے کس کس ظرح


بچا جا سکتا ہے اور ان کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے اور پھر یہ بھی تاریخ نے بتایا کہ صرف نظریہ دینے


والا ہی اپنے نظریہ پر قائم رہ سکتا ہے اور اگر وہ چاہے بھی تو اپنے نظریہ سے نہیں پھر سکتا کیونکہ


اگر وہ پھر گیا تو پھر آئندہ کوئی بھی فرد نہ نطریہ اور نہ نظریہ دینے والے پر اعتماد کر سکتا ہے اور لوگ


پھر کسی پر بھی بھروسہ نہیں کریں گے ۔ منزل نہیں راہنما چاہیے ( تاریخ اور دلیل کے ساتھ ) جاری ہے ۔


Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"