انصاف کا قتل دیکھا

                                                    

       "آج انصاف کو قتل ہوتے دیکھا"

 تحریر" کنور اسلم شہزاد                                                       



ٹی وی۔اخبارات،رسائلو جرائد اور سوشل میڈیا پر بس اک ہی خبر"الطاف حسین" غدار ہے،ملک دشمن ہے

را کا ایجنٹ" ہے۔پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا دیا۔بند کر دو،ریڈ وارنٹ نکال دو،زباں بند کر دو،لٹکا دو،پاکستان لاؤ ا

پھانسی پر چڑھا دو۔آخر کیوں یہ سب کہا جا رہا ہے،سمجھ نہیں آ رہا تھاتو سوچا دیکھوں تو یہ کون شخص ہے

کیوں ایسا کہتا ہے،کہتا ہے یا حالات و واقعات کی بنیاد پر ایسا کہ رہا ہے اور پھر سوچا "GOGGLE" جا کر 

دیکھا جائے،گیا دیکھا تو ایسا نہ تھا،سیاق و سباق کو ملا کر دیکھا نہیں گیا تھا ابھی سوچ رہا تھا اور دیکھوں؟

ٹی- وی دیکھ رہا تھا صابر شاکر،سمیع اور دانشور بھٹی صاحب جو علم و دانش کا منبع ہیں ایک سلائڈ نظر آئی

سپرم کورٹ کے چیف جسٹس محترم ساقب نثار صاحب فرما رہے تھے ہم قوم کو مایوس نہیں کریں گےعدل ہوگا۔

پاکستان کی عدالت نے طیبہ کیس کا از خود نوٹس لے لیا ہے انصاف ہوگا یہ خبر تو آ ہی گئی تھی بہت خوش تھا طاقتور اب

 نہیں بچ پائےگا اب جج اور ان کی اہلیہ کو سزا ہوگی ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے چیف نے نوٹس

لے لیا ہےاب طیبہ کو انصاف ملے گا اور پھر لگا الطاف حسین غلط کہتے ہیں مگر ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا؟

طیبہ کیس  میں والدین نے  جج صاحب اور انکی اہلیہ کو معاف کر دیا گیا ہے اور انکی ضمانت منظور کر لی گئی

ہے پھر اک رپورٹ ساتھ دکھائی گئی کہ وکلاء والد کو اپنے حصار میں لائے اور اک اندوہناک خبر کہ لوگوں نے

دیکھا کہ طیبہ کا وکیل بھی جج صاحب کے وکیل کا ساتھ دے رہا تھا اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ والد پر بہت پریشر تھا اور

پھر یہ بھی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پھر وکلاء طیبی کے والد کو نامعلوم مقام کی طرف لے گئے۔

قائد اعظم کا چہرہ اک دم سامنے آ گیا اور اک دم زبان سے یہ رپورٹ دیکھ کر نکلا لعنت ہو ایسے انصاف پر اور

پھر زبان سے نکلا اللہ ان پر عذاب نازل کرے سب بک گئے،اللہ اس بچی پر ہونے والے ظلم کا بدلا تو لینا؟

طیبہ سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں مگر کیا میری بیٹی کے ساتھ یہ ظلم ہوتا تو میری زبان سے دعا نکلتی یا اگر طیب

 کی جگہ جج صاحب کی بیٹی کے ساتھ یہ سب خدانخواستہ ہوتا اور فیصلہ یہ آتا تو کیا وہ اس فیصلہ کے بعد

اگر ان کے منہ سے پاکستان کے نظام،عدلیہ اور چیف جسٹس کے بارے میں فطرت جزبات میں غلط الفاط نکل جاتے

تو کیااسکا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ایسا چاہتے ہیں یا اس فیصلہ کو دیکھتے ہوئے فطرت جزبات میں الفاظ نکل جاتے تو اس 

غلط فیصلہ کی بنیاد پر ہوتا جس سے ان کے دل سے اس صورتحال میں غلط الفاظ نکلے۔

الطاف حسین کے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ حالات کی بنیاد پر تھے اور پھر اسپر احساس ہوتے ہی معافی بھی مانگ 

لی گئی تھی اور وہ بھی 2 بار پھر بھی معاف نہ کیا گیا اور نہ ایسا کرنے کی نیت نظر آتی ہے۔

آج طیبیہ کے کیس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور زبان سے بد دعا نکل رہی تھی جبکہ اس بچی سے تعلق 

بھی نہ تھا تو الطاف حسین کے تو ساتھی شہید ہو رہے تھے،لاپتہ ہو رہے تھے،لاشیں مل رہی تھیں،بھوک ہڑتال سے لوگ 

مر رہے تھے ساتھ ہی ریاستی ظلم میں اضافہ ہو رہا تھا تو شدت جزبات میں دل دکھا ہونے کی بنیاد پر ایسا ہوا تو حالات و 

واقعات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے تمام اداروں کو ان شکایات کو سننا چاہئے اور

اس کا حل تلاش کرنا چاہیے اور پاکستان میں رہنے والوں کی شکایات کو سنکر ان کو حل کرنا چاہیے اور پھر ان مسائل 

کےحل ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی بھی ایسا کہے تو پھر یقینا اسکے خلاف کاروائی ہونا چاہئے مگر بات

وہی ہے کہ خدارا پاکستان میں بسنے والے ہر فرد کی بات سنی جائے اور انکو حل کیا جائے جب یہ سب ہو جائے گا اور ہر 

اک کو اسکا حق مل جائے گا،بلوچ۔سندھی،پنجابی،پختون۔مہاجر یہ سب اک گلدستے میں پرو دیا جائیں گے تو پھر اس 

گلدستے میں پروئے ہوئے سب افراد کے دل سے خود بخود ےآواز آئے گی۔پاذکستان زندہ باد۔









Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"