کیا ہم آزاد ہیں؟

     




                                   
               کیا ہم آزاد ہیں؟                             

   تحریر:کنور اسلم شہزاد    قسط"اول                                           
                  
اک لفظ ہے"غلام " اسکا مطلب ہے کسی کو خرید لینا اور خرید لینے والےغلام کو یہ حق حاصل نہیں ہے
کہ وہ کچھ بول سکے۔پوچھ سکے۔جو دل چاہے وہ نہ کر سکےاورمالک اسکو جوحکم دے بس بجا لائے۔
نہ چوں کرے نہ چرا بس کام کرتا ہے،پوچھنے کی اجازت نہیں یعنی"غلامی"کرتا رہے مار کھاتا رہے مگر
یہ "حق" کس کو حاصل ہے تو لغت میں اک لفظ "مالک" نظر آیا جو صاحب حیثیت ہوتا ہے یعنی
"سرمایہ دار"سردار" اور یہ سردار حکم چلاتا ہے جو اسکے غلام ہوں پتہ چلا یہ اک ذہنیت کا نام ہے۔

تاریخ کے اوراق پلٹے تو معلوم یہ دو ذہنیت کےنام ہیں"اک مالک"اک غلام" دو نظریے کےنام۔،تحریک کے نام
آقا یعنی قید کرنےوالا اور غلام اسکا حکم بجا لینے والے کا نام اسطرح معلوم ہوا یہ آزاد اور آزادی الفاظ
کیسے وجود میں آئے،کیوں آئے؟کب آئے اور انکی ضرورت کیوں محسوس کی گئی مطلب یہ تو اک فلسفہ ہے۔
غلامی یہ کیسے بنا پھر وہی کیوں؟کیسے کی تکرار"غلامی"کو "لغت" میں دیکھا تو معلوم ہواقید کرنا۔بند کرنا۔

آزاد یہ مجموعہ ہے4 حروف کایہ لفظ ایجاد کیوں ہوا؟ پھر اس سے اک اور لفظ بنا آزادی کیوں؟آخر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟یہ لغت میں کیسے آیا؟کیوں آیا؟اسکا مطلب کیا ہے؟بڑا دل کش لفظ ہے آزاد لیکن اک لفظ ہے۔

یہ تو 2 تحریک ہوئیں"آقا"غلام" یعنی جبر کرنے والا "آقا"اور ظلم سہنے والا "غلام" اس آقا کے مختلف نام رہے
فرعون۔شداد۔نمرود۔ہٹلر۔اورغلام منصوراور ہر فرعون کیلئے اک موسیٰ۔یزید۔دراصل یہ علامات ہیں۔

فرعون۔شداد۔نمرود۔ہٹلر ظالم اور ان کےظلم کے خلاف آواز بند کرنے والے"غلام" کہلائے اور پھرارتقائ ی سفر طے کرنے کے بعد زمانے کےساتھ ساتھ ان کے نام بھی بدل گئےکردار وہی رہے بس نام کی تبدیلی کا عمل جاری رہا۔

اب معلوم ہوا "آزاد اورآزادی کا مطلب ہم کیونکہ پاکستان میں رہتے ہیں"پاکستانی"ہیں مگر یہ کیا؟"پاکستان"
اس سےپہلے کیا یہ ملک نہیں تھا تاریخ کا صفحہ پلٹا تو پتہ چلا پہلے یہ برصغیر پاک و ہند تھا اور یہاں مختلف
مذاہب کے افراد ساتھ رہتے تھےہندو۔سکھ،مسلمان،عیسائی،بدھ مت اور سب ایک ساتھ رہتے تھے اور یہ بھی دیکھا کہ مسلمان ہندو لڑکی کے ہاتھ میںراکھی باندھتا تھا اور اسکا ایمان سلامت رہتا تھااسی طرح ہندو مسلمان
کی مسجد کے سامنے گزرتے ہوئے شادی کی بینڈ باجے احترام میں بند کر دیتا تھا اور سب ہی اک دوسرے کی
مذہبی رسم و رواج کا احترام کرتے تھے اور گاؤں کی بیٹی بلا لحاظ رنگ و نسل سب کے لئے قابل احترام تھی؟

ہندوستان سونے کی چڑیا تھی اور انگریز اس پر تاجرکی شکل میں حملہ آور ہوا اور قابض ہوگیااور پھر 
برصغیر کے تمام لوگوں نے ملکر ان کے خلاف جدوجہد کی اور"آزاد"ہوئےاور پھر انگریزوں نے ان دونوں
کو تقسیم کرنے کی ٹھان لی اور کل تک ساتھ رہنے والے آپس میں لڑنے لگے مسجد کے آگے "سور" اور مندر
کے آگے"گائے"کاٹ کے پھینک دی جاتی اور پھر یہ خلیج بڑھتی گئی اور پھر "تقسیم" ہند کی تحریک نے جنم
لیا اور ہندوستان تقسیم ہو گیا۔کانگریس نے اعلان کیا کہ وہ تمام زمینیں ضبط کرنے کا اعلان کیا اور کیا۔

 مسلم لیگ نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا تھا اور پھرتمام جاگیردار،سرمایہ دار،وڈیرے،چودھری اپنے مفادات کی خاطر"مسلم لیگ" میں شامل ہو گئےچندایک"لیاقت علی خان" جیسےلیکن اک تاریخ اور رقم ہوئی اور تاریخ میں پہلی بار"آزادی "کی تحریک اقلیتی صوبوں سے چلی اور اک اور تاریخ رقم ہوئی اکثیرتی آبادی خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی مگر "پاکستان"دنیا کے نقشہ پر ابھر کر سامنے آیا کر دیا"پاکستان" اور ہم ایک آزاد قوم بنے یا نہیں؟

ہم آزاد ہوئےیانہیں یاگورے آقا نے اپنے غلاموں کو کالے آقا کے سپرد کر دیا چہرے بدل گئے کردار وہی؟
پاکستان بن تو گیا مگر ستم بالائے ستم یہ کہ پاکستان کی مخالفت کرنے والے" قائداعظم" کو کافر اعظم اور
پاکستان کو"کافرستان" کہنے والی "جماعت اسلامی" اور اسکے "قائد مولانا ابوالااعلی مودودی"سب سے پہلے
یہاں آئے اور "پٹھان کوٹ" منتقل ہو گئے یہی حال جمعیت علمائ اسلام کا رہا مگر آج اسلام اور پاکستان کی
محبت کا دعوئے اور قائد اعظم سے سب سے زیادہ کا دعوئے کرتے نہیں تھکتے یہ اسلام نہیں"تھیوکریسی"
"ملائیت" کہلاتی ہے اور اسلام اور پاکستان کے نام پر یہ آج تک قوم کو بے وقوف بناتے چلے آرہے ہیں۔

آزادی کے اعلان کے فوراً بعد برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں پر بھی ایک بم پھٹا۔ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ہندو اور سکھ مسلمانوں کو چ ن چ ن کر قتل کر رہے تھے جاپانیوں پر تو بم گراتھا اس لیے انہوں نے ایک دفعہ درد سہا لیکن آزادی کے وقت مسلمانوں نے جو قیمت چکائی اس کے آگے ایٹم بم کی تباہی بھی ہیچ دکھائی دیتی ہے۔بات صرف قتل وغارت کی ہوتی تو مان لیا جاتا کہ درندگی ہے لیکن بھائی کے سامنے بہن کی عزت اور باپ کے سامنے بیٹی کی عزت تارتار کرنا،درندگی سے بھی بدتر ہے۔ گھروں کو جلا دیا گیا،یہ سوچے بنا کہ اندر کوئی زندہ جان بھی موجود ہے۔بچوں کی گردنیں ان کی ماؤں کے سامنے کاٹ دی گئیں۔جوان بچیوں کی عصمت دری کی گئی۔جن میں زیادہ ہمت تھی وہ یا تو چھت سے کود گئیں یا پھر کنونیں میں چھلانگ لگادی،ماؤں کی آبروریزی کی گئی۔یہ سوچے بناہی کےان درندوں کے اپنےگھروں میں بھی ان کو جنم دینے والی مائیں موجود ہیں۔

چلتی ٹرینوں پر تیل پھینک کر آگ لگا دی گئی۔پٹریاں ا کھاڑ دی گئیں۔جی ہاں یہی سب کچھ ہوا،ہمارے آباؤ واجداد کے ساتھ آزادی کے لیے۔ انہوں نے ہر طرح کی قربانیاں دیں صرف اور صرف آزادی جیسی نعمت کو پانے کے لیے۔ان کی زندگی کا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ پاک سرزمین پر ایک دفعہ قدم رکھ سکیں۔اپنے خوابوں کی جنت کو دیکھ سکیں۔انہوں نے آزادی کے لیے سب کچھ کیا ،جان کی پرواہ نہیں کی،مال بھی لٹا دیا اور عزتیں بھی لٹوادیں لیکن جب آزادی ملی تو سارے زخم مندمل ہوگئے،گھاؤ بھر گئے،درد ر ک گئے ،دعائیں رنگ لے آئیں اور سر زمین پاکستان کو دیکھنے کی تمنا پوری ہوگئی۔ان کے گھر جل گئے ،بچے قتل ہوگئے،بیٹیاں لٹ گئیں،زمینیں چھن گئیں، لیکن ان کو کوئی غم نہیں تھا۔پاکستان میں آنے کے بعد ایک دلی سکون ملا کہ گھر نئے بن جائیں گئے،بچے بھی مل جائیں گے،جائدادیں بھی بن جائیں گی۔لیکن آزادی کیا معلوم تھا یہ سراب بن جائیگا؟

آزادی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ہجرت ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی اور پاکستانی ہونا کسی کسی کے مقدر میں لکھا ہے۔تاریخ کی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی،لاکھوں مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف اس لیے یہاں آئے کہ پاکستان میں ان کو سکون ملے گا۔ان کے بچوں کا مستقبل اچھا ہوگا،وہ پ رسکون زندگی بسر کریں گے۔یہاں کوئی ان کے ساتھ زیادتی نہیں کرے  گا لیکن انسان پتا نہیں کیا کیا سوچتا رہتا ہے۔حال کو چھوڑ کر مستقبل کی فکریں لاحق رہتی ہیں۔انہوں نے بھی یہ سب کچھ سوچا تھا،کئی پلان بنائے تھے۔پاکستان میں صرف پاک لوگ ہوں گے۔اس کے حکمران بہت پکے ایمان والے ہوں گے ،یہاں ہر طرف اسلامی قانون نافذ ہوگا۔مسلمان تو مسلمان، غیرمسلموں کو بھی ان کے حقوق ملیں گے۔کوئی جھوٹ نہیں بولے گا۔ سب دیانت دار ہوں گے ،ایک دوسرے کی فکر کریں گے،ہر پاکی دوسرے پاکی کا ساتھ دے گا اور حکمران خلفائے  راشدین کی طرح حکمرانی کریں گے۔خود بھوکے رہیں گے لیکن عوام کو کھانا ملے گا۔بیت المال پر تمام غریبوں کا یکساں حق ہوگا 

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں 1947 میں تمام مسلمانوں کے لئے بنے والے اس ملک کی سرحدوں کو اس ملک کے حکمرانوں 1954 میں اک تحریر کے ذریعے مطلع کیا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان اب اپنے آپ کو
ہندوستان کا شہری سمجھیں شکر ہے بتا دیا نہ بتاتے تو کیا کرتے سوچا کا بیتی ہوگی ان کے دل پر؟
بات یہیں ختم ہو جاتی تو برداشت ہو جاتا مگر یہاں تو پاکستان کے حکمرانوں نے قائد اعظم کو ایمبولیس
بھی ایسی بھیجی جو منزل جو چلنے کے قابل بھی نہیں تھی پھر ایوب خان نے مادر وطن محترمہ فاطمہ کو انڈیا
کا ایجنٹ قرار دے دیا اور اک غیر ملکی اخبار کو یہ انٹرویو دیا۔پھر چشم فلک نے اک اور منظر دیکھا کہ
مادر وطن جنکا انتخابی نشان"لالٹین"تھی اور گلاب ایوب خان کا نشان تھااور بڑا شرمناک منظر دیکھا گیا اور
فاطمہ جناح ہارا دی گئیں اور فوجی آمر جیت گیا اور پھر لالوکھیت میں گوہر ایوب نے کراچی میں بسنے والے
محب وطن پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیا گیا یہ سزا ملی پاکستانیوں جنھیں "مہاجر" کہا اور آج تک مہاجر۔

تاریخ یہ بھی ہے سبکوملک پاکستان نام دینے والے،پہچان دینے والے تو آج تک مہاجر ہیں مگر دوسرے جنھوں نے پہچان دی مگر وہ آج بھی پنجابی،پختون،بلوچی،سندھی ہوتے ہوئے بھی پاکستانی ہیں۔

سردار،خان،چودھری،وڈیرے ہیں ان کے لئے کوئی قانون نہیں کیونکہ یہ اہل زمین ہیں۔1947 میں بنے والا ملک
1971 میں صرف 24 سال بعد دو لخت ہوگیا کیوں اکثریت نے اقلیت سے جان چھڑائی اور آج ہم ان کی آمد پر
توپوں کی سلامی دیتے ہیں میرا پاکستان کس نے دو ٹکڑے کیا؟لیاقت علی خان کو کس نے شہید کیا، کوئی جواب نہیں اس سب کے ہوتے ہوئے بھی آج پاکستان کی خاطر جان دینے والے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ہیں؟

ان کے زخم صرف اپنی سوچوں نے بھرے تھے کہ ہمیں سب کچھ نہیں ملا تو کیا ہوا ہمارے بچے تو پ ر امن زندگی بسر کریں گے……لیکن وہ سب کچھ ایک خواب کی طرح لگتا ہے نا…… آزادی ……تن من دھن لٹانا……صرف وطن کے لیے……ہمارے لیے……لیکن کیا آج ہم آزاد ہیں۔اگر آزاد ہوتے تو قائد کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی کشمیر ہم سے کیوں چھین لیا جاتا؟بنگلہ دیش کیوں ہم سے الگ کیا جاتا؟اگر ہم آزاد ہیں،ہمیں آزادی میسر ہے تو پھر ہم خود ہی اپنے ملک کو کیوں توڑ رہے ہیں ؟بھوکے گدھ کی طرح کیوں اپنوں کا ہی گوشت نوچ رہے ہیں؟ہمیں اپنے علاوہ کوئی اور نظر کیوں نہیں آتا؟کیا اقتدار کی ہوس نے ہمیں اندھا کر دیا ہے یا ہمارا ضمیر سو چکا ہے، نہیں مرچکا ہے ،کیونکہ سویا ہوا کبھی نہ کبھی تو جاگ ہی جاتا ہے؟

اگر ہم آزاد ہیں تو پھر اپنی ہوس کے لیے اپنے سگے بھائی کا خون بہا رہے ہیں ؟بہنوں بیٹیوں کو کیوں ان کے حقوق نہیں دے رہے؟اگر ہم آزاد ہیں تو پھر یہ بے سکونی کیسی؟ چین کیوں نہیں ملتا؟ہر وقت منفی سوچیں ہی کیوں گھیرے رکھتی ہیں؟گر ہم آزاد ہیں تو پھر  کیا یہ آزادی ہے؟ عورتوں کو ان کے اصل حقوق سے تو محروم رکھا جاتا ہے ،حق مہر دیا نہیں جاتا ، وراثت میں ان کوحق دار ٹھہرایا نہیں جاتا،انا پرستی اور ہٹ دھرمی کی بنا پر ان کو گھروں میں بٹھایا جاتا ہے،شادیاں نہیں کی جاتیں۔لیکن جب بات حقوق نسواں کی آتی ہے تو بل پاس ہوتے ہیں۔جو گھر میں اپنی بیوی اور بیٹی کے حقوق پورے نہیں کرتے وہ حقوق نسواں کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں……یہ آزادی نہیں ہو سکتی……آزادی تو بہت پاکیزہ لفظ ہے جس کو پڑھ کر ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے جس کو سن کر کان سکون محسوس کرتے ہیں۔ہمارے آبائ واجداد نے ہمارے لیے سب کچھ لٹا کر آزادی حاصل کی لیکن کیا ہم اتنے آزاد ہو گئے ہیں کہ آزادی کا مفہوم ہی بھول گئے ہیں ، ہم اپنے مفاد کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ہمارے غریب کوڑا کرکٹ کے ڈھیرے اٹھا کر کھانے پر مجبور ہیں لیکن ہمارے حکمران صرف آپس کی چپقلش میں مبتلا ہیں کیا ہم آزاد ہیں یا غلام؟ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ہر سال صرف 14گست ہی ہماری آزادی کا دن کیوں ہوتا ہے؟کہیں ہم ذہنی طور پر غلام تو نہیں بن چکے؟اگر ایسا ہے تو پھر تہذیب حاضر کے ہر فرد کے لیے لمح? فکریہ ہے۔غلامی سے بدتر ہے بے یقینی!سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار۔

اب بھی وقت سنبھلنے کا ورنہ وقت کے فرعونوں نے تو ساحر،شورش،فاطمہ جناح اور جس جس نے ظالموں کے
آگے سر نہیں جھکایا،آواز حق بلند کی انکو "غدار""را"کا ایجنٹ قرار دیا،زبانیں بند کر دیں پابند سلاسل کر 
دیا گیا۔مجیب،بھاشانی کی شکایات سنے اور ان کو دور کرنے کے بجائے غدار کہ کہ کر آخر ملک توڑ دیا۔

آج پھر ہر اک ناراض ہے کوئی جئے سندھ۔جئے بلوچستان اور کوئی پاکستان میں اپنے حقوق دینے کی بات کرتا
ہے تو پھر سرٹیفکیٹ جاری کر دیے جاتے ہیں۔ملک کے تمام مکاتب فکر کو ایک جگہ لانے والے اور مذہبی
منافقت کو ختم کرنے والے شخص"الطاف حسین" جنھوں نے کراچی۔حیدرآباد۔میرپور اور سندھ میں ہونے والے
شیعہ سنی جھگڑے کو نہ صرف ختم کروایا بلکہ عملی طور پر شیعہ آبادی سے سنی اور سنی آبادی سے شیعہ
نمائندوں کو کامیاب کروا کر ثابت کر دیاملک سے محبت کے لئے عمل ضروری ہے اور اس کے لئے 
"الطاف حسین" ضروری ہے جس نے سندھ میں سندھی مہاجر،شیعہ،سنی اور کراچی حیدرآباد سے مذہبی
انتہا پسندوں کے راستے بند کر دیے بلکہ حقہ پانی بند کر دیا اور پھر اہل سندھ نے انکی آواز پر لبیک کہا؟

فرعونوں نے اس کو روکنے کیلئے ہر طاقت استعمال کی اور کر رہی ہے،جیل،تششدد،قتل،گروپنگ کی ہر کوشش
کی اس کے خلاف جس نے اک عام فرد کو صوبائی،قومی۔سینٹ،میئر،کونسلر تک عام فرد کو پہنچایا اور قتل
تشدد پر اس کی زبان سے اک نعرہ نکل گیا جسکی معذرت بھی کر لی گئی کیا یہ صرف اس اک شخص کی 
زبان سے نکلا اگر نہیں تو پھر یہ عمل بلکہ اس سے بڑھ کر نواز شریف۔ سردارآصف،بزنجواور پاکستان سے سب 
سے زیادہ محبت کا دعوے کرنے والے مولانا منور حسن تو اس سے بہت آگے جا کر بہت کچھ کہ چکے ہیں تو پھر
سب کے ساتھ اک جیسا سلوک کیوں نہیں کیا اک کی تحریر تقریر پر پابندی اور ریاستی ظلم و ستم اور دوسرے  کے ساتھ کچھ نہیں ہم آزاد ہیں سوچیں،دیکھیں کیا ہم آزاد ہیں،ذہنی،جسمانی،تحریر اور تقریر میں آزاد ؟                                              

Comments

Popular posts from this blog

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"