" تاریخ کا آئینہ"

               

                                          "میں کون ہوں 1857سے1947تاریخ کےآئینے میں"

                                                  تحریر:کنور اسلم شہزاد                                              


       

میں کون ہوں،کہاں سے آیا۔میری تاریخ کیا ہے۔کیا بیچتا ہوں،کیا بیچتا تھا،میرے آباو ¿ اجداد نے کیا کیا۔
میں صدا بازگشت ہوں۔میں تحریک ہوں۔میں نظریہ ہوں،میں آگاہی ہوں اور آگہی دیتا بھی رہا ہوں۔
اذان حق ہوں،علم حاصل کرنا اور شعور دینا میرا کام رہاہے،کرتا رہا ہوں،کرتا رہوں گا۔منصور ہوں۔
سولی پر چڑھ کر بھی عن الحق کا نعرہ لگاتا رہا ہوں۔علم کی شمع روشن کرتا رہا ہوں۔سرسید کا پیروکار ہوں
علیگڑھ یونیورسٹی بنا کر میں نےبرصغیر کے لوگوں کو انگریزی تعلیم سے روشناس کروایا تاکہ وہ انگریزوں کا مقابلہ ان ہی کی زبان میں کر سکیں اور سرسید احمد خان کا جلایا ہوا دیا آج اک روشن الاؤ کی شکل اختیار کر
چکا ہے اور دینا بھر میں علیحگڑھ یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔تاریخ تو بہت طویل ہے کیا کیا بتاو ں اور
کیا بھول جاو ¿ں، میں بی اماں کی اولاد ہوں،محمد علی جوہر اور شوکت علی جوہر کی للکار ہوں جنھوں نےغلام ملک میںدفن ہونا پسند نہیں کیا۔
میں آزادی کی جنگ کا سپاہی ہوں،میرے ساتھی شہید ہو گئے،اپاہج ہوئے،زخمی ہوئےولی پر لٹکا دیے گئے،پھانسی کا پھندہ ہنس کر گلے میں ڈالا مگر ظالم کے آگے ہتھیار نہ ڈالے میں وہ مجاہد ہوں۔
برصغیر کے لوگوں جس میں تمام افراد بلا تفریق رنگ و نسل اس میں شامل تھے،نہ کوئی ہندو تھا نہ مسلم بلکہ صرف ایک ایجنڈہ تھا اور وہ تھا انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا اور سب شانہ بشانہ ساتھ کھڑے تھے۔
جنگ آزادی ہند1857کے اسباب
ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ۔انگریزوں نے اس جنگ کو غدر کا نام دیا۔ عموما اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولا یہ کہ ایسٹ ایڈیا کمپنی کے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہوگئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جوکارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں مین بہت سے ایسے تھے جنہوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔9 مئی اٹھارہ سو ستاون کو میرٹھ کی چھاونی میں تیسری لائٹ کیولری کے تقریبا پینتیس سپاہیوں کی برسرعام وردیاں اتار دی گئیں۔ ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور انہیں دس سال کی قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایسے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جن میں مبینہ طور پر گائے اور سور کی چربی ملی ہوئی تھی۔ اس واقعہ پر مشتعل ہو کر ان کے دوسرے ساتھیوں نے اگلے روز دس مئی کو سنٹ جانس چرچ میں گھس کر متعدد انگریز افسروں اور ان کے کنبہ کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جلدہی اس بغاوت نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور رات ختم ہوتے ہوتے متعدد فرنگی موت کی نیند سو چکے تھے۔ان باغیوں نے یہاں سے دلی کا رخ کیا جو یہاں سے چالیس میل دور تھی اور اگلے روز دلی پہنچ گئے۔ انہوں نے دریائے جمنا پر بنے کشتیوں کے پل کو پار کیا اور کلکتہ دروازہ سے فصیل بند شہر میں داخل ہوئے۔ دو پہر ہوتے ہوتے متعدد انگریز اور دیگر یورپی ا ن کی بندوقوں اور تلواروں کا نشانہ بن چکے تھے۔بارہ اور سولہ مئی کے درمیان ان باغیوں نے عملا لال قلعہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔
جنگ آزادی ہند کا آغاز 1857 میں بنگال میں ڈمڈم اور بارک پور کے مقامات پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کر دیا جن میں ان کے خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے ان سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخاست کر دیا۔ لکھنو میں بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے۔ اور فوجیوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے۔9 مئی 1857 کو میرٹھ میں ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ بھی تہذیب سے گرا ہوا تھا۔ دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے ان قیدیوں کو آزاد کرا لیا اور میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے۔میرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی میں آمد سے دہلی کی فوجیں بھی بگڑ گئیں۔ اور دہلی کے مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔
دہلی کی فتح کے بعد انگریز فوجوں نے شہری آبادی سے خوف ناک انتقام لیا۔ لوگوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ سینکڑوں کو پھانسی پر چھڑھا دیا گیا۔ ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑا دیے گئے۔ ان میں مجرم بھی تھے اور بے گناہ بھی۔ مسلمان بھی تلوار کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اور ہندو بھی۔ لیکن جلد ہی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں نے قتل و غارت میں فرقہ ورانہ رنگ بھر دیا۔ مسلمان چن چن کر قتل کیے گئے۔ بہت سے مقتدر اور متمول مسلمانوں کی جائدادیں تباہ ہو گئیں۔ اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے۔ ان ہولناک مظالم کا اعادہ ان مقامات پر بھی کیا گیا جہاں جنگ کی آگ بھڑکی تھی۔
اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔اس جنگ کے بعد خصوصا مسلمان زیر عتاب آئے۔ جب کہ ہندوں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت کر لی۔ یوں مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اور خود مسلمان بھی نئی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں سرسید جیسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے اس جنگ آزادی کے وجوہات پر روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ ہندوستانیوں میں موجود احساس محرومیوں کو دور کرکے ہی انگریز یہاں حکومت کر سکتا ہے۔ سرسید نے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔اس جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کر ہندوستان کے لیے لڑے لیکن اس کے بعد انگریز کی سازش اور کچھ ہندوں کے رویے کی وجہ سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے۔ یوں پہلی مرتبہ دو قومی نظریے کی بنیاد پڑی اور انگریز نے اپنے مفاد کی خاطر ہندوستان کو ہندو اور مسلمان کی بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا۔
پاکستان 14اگست 1947کوآزاد ہوا۔پاکسستان کے تمام شہری جشن آزادی منارہے تھے۔
14 اگست یعنی یوم آزادی۔۔تاریخ کے صفحات اورہندوستان کی سرزمین گواہ ہے کہ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا تب کہیں جاکر ہندوستان اور اس میں بسنے والوں کو آزادی نصیب ہوئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف اس جنگ میں ہندومسلم ساتھ ساتھ رہے۔
قانون آزادی ہند1947(Indian Independence Act 1947)برطانوی پارلیمنٹ کے ایک قانون تھا جس کے تحت تقسیم ہندعمل لائی گئی اوردونئی عملداریا ں مملکت پاکستان اورمملکت بھارت وجودمیں آئیں۔ قانون کوشاہی اجازت 18جولائی 1947کوحاصل ہوئی۔اوردونئے ممالک پاکستان 14اگست کواوربھارت 15اگست کووجودمیں آئے۔
برصغیرکے دوبڑے ممالک بھارت اورپاکستان جوبرطانوی حکومت کے دوران ایک ہی ملک ’بھارت‘کے نام سے جانے جاتے تھے۔ایک وسیع ملک آزادہوکردوملکوں میں تقسیم ہوا۔
اب معلوم ہوا میں کون ہو میں وہ ہوں جو انگریزوں کے آگے نہ جھکا،میں وہ ہوں جو کبھی متعصب نہ رہا،میں وہ ہوں جو ہر مذہب کا احترام کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔جب بھی جہاں بھی ظلم ہوا میں اس کے آگے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔انگریز مجھے نہ خرید سکا نہ دبا سکا۔ میں نشاں منزل ہوں ۔
اللہ کا احسان ہے تاریخ نہیں تاریخ ساز ہوں،بادشاہ نہیں بادشاہ گر ہوں کیونکہ میں حق کا سپاہی ہوں۔آمین

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"