1947to1857 قسط دوئم




                                                 

                                                      1947to1857تایخ کے آئینے میں"

                                                         تحریر:کنور اسلم شہزاد قسط دوئم 

 یہ تاریخ ہے غازی حق اور شہداء حق کی اور اس کا اختتام 9 دسمبر2016 پر ہوگا ۔پہلی قسط تاریخ آزادی
 دوسری1857 سے 1947 کی تیسری قسط 1947 سے 10 جون 1978 اور چوتھی قسط 11جون 1978 سے
2016 تک ہوگی۔1978 سے 2016 میں اے۔پی۔ایم۔ایس۔او سے لیکر 8 دسمبر2016 کی تاریخ ہوگی۔
میں کون ہوں،کہاں سے آیا۔میری تاریخ کیا ہے۔کیا بیچتا ہوں،کیا بیچتا تھا،میرے آباؤ اجداد نے کیا کیا۔
میں صدا بازگشت ہوں۔میں تحریک ہوں۔میں نظریہ ہوں،میں آگاہی ہوں اور آگہی دیتا بھی رہا ہوں۔
اذان حق ہوں،علم حاصل کرنا اور شعور دینا میرا کام رہاہے،کرتا رہا ہوں،کرتا رہوں گا۔منصور ہوں۔
سولی پر چڑھ کر بھی عن الحق کا نعرہ لگاتا رہا ہوں۔علم کی شمع روشن کرتا رہا ہوں۔سرسید کا پیروکار ہوں
علیگڑھ یونیورسٹی بنا کر میں نےبرصغیر کے لوگوں کو انگریزی تعلیم سے روشناس کروایا تاکہ وہ انگریزوں کا مقابلہ ان ہی کی زبان میں کر سکے اور سرسید احمد خان کا جلایا ہوا دیا آج اک روشن الاو ¿ کی شکل اختیار کر
چکا ہے اور دینا بھر میں علیحگڑھ یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔تاریخ تو بہت طویل ہے کیا کیا بتاو ¿ں اورکیا بھول جاو ¿ں، میں بی اماں کی اولاد ہوں،محمد علی جوہر اور شوکت علی جوہر کی للکار ہوں،غلام ملک 
میں دفن ہوناپسند نہیں کیا۔میں آزادی کی جنگ کا سپاہی ہوں،میرے ساتھی شہید ہو گئے،اپاہج ہوئے،زخمی 
ہوئےسولی پر لٹکا دیے گئے،پھانسی کا پھندہ ہنس کر گلے میں ڈالا مگر ظالم کے آگے ہتھیار نہ ڈالے میں وہ مجاہد ہوں میں یا تو غازی ہوتا ہوں یا راہ حق میں اپنی جان دے دیتا ہوں ۔منصور ہوں پھنسی چڑھ جاتا ہوں۔
پاکستان 14اگست 1947کو انگریزوں سے آزاد ہوا۔ملک کے تمام مدارس یونیورسیٹیوں ،کالجز اوراسکولوں میں بلکہ پاکسستان کے تمام شہروں، قریہ قریہ میں جشن یوم آزادی منایا جاتا ہے۔اپنے ملک کی سرزمین سے کسے محبت نہیں ہوتی،ہندوستان کو انگریزوں سےآزاد کرانے میں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا تب کہیں جاکر ہندوستان اور اس میں بسنے والوں کو آزادی نصیب ہوئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف اس جنگ میں ہندومسلم ساتھ ساتھ رہے




قانون آزادی ہند1947(Indian Independence Act 1947)برطانوی پارلیمنٹ کے ایک قانون تھا جس کے تحت تقسیم ہندعمل لائی گئی اوردونئی عملداریا ں مملکت پاکستان اورمملکت بھارت وجودمیں آئیں۔ قانون کوشاہی اجازت 18جولائی 1947کوحاصل ہوئی۔اوردونئے ممالک پاکستان 14اگست کواوربھارت 15اگست کووجودمیں آئے۔
جنگ آزادی ہند1857کے اسباب
ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ۔انگریزوں نے اس جنگ کو غدر کا نام دیا۔ عموما اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولا یہ کہ ایسٹ ایڈیا کمپنی کے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہوگئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جوکارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں مین بہت سے ایسے تھے جنہوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔9 نو مئی اٹھارہ سو ستاون کو میرٹھ کی چھاونی میں تیسری لائٹ کیولری کے تقریبا پینتیس سپاہیوں کی برسرعام وردیاں اتار دی گئیں۔ ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور انہیں دس سال کی قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایسے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جن میں مبینہ طور پر گائے اور سور کی چربی ملی ہوئی تھی۔ اس واقعہ پر مشتعل ہو کر ان کے دوسرے ساتھیوں نے اگلے روز دس مئی کو سنٹ جانس چرچ میں گھس کر متعدد انگریز افسروں اور ان کے کنبہ کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جلدہی اس بغاوت نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور رات ختم ہوتے ہوتے متعدد فرنگی موت کی نیند سو چکے تھے۔ان باغیوں نے یہاں سے دلی کا رخ کیا جو یہاں سے چالیس میل دور تھی اور اگلے روز دلی پہنچ گئے۔ انہوں نے دریائے جمنا پر بنے کشتیوں کے پل کو پار کیا اور کلکتہ دروازہ سے فصیل بند شہر میں داخل ہوئے۔ دو پہر ہوتے ہوتے متعدد انگریز اور دیگر یورپی ا ن کی بندوقوں اور تلواروں کا نشانہ بن چکے تھے۔بارہ اور سولہ مئی کے درمیان ان باغیوں نے گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔
بے گناہ بھی۔ مسلمان بھی تلوار کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اور ہندو بھی۔ لیکن جلد ہی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں نے قتل و غارت میں فرقہ ورانہ رنگ بھر دیا۔ مسلمان چن چن کر قتل کیے گئے۔ بہت سے مقتدر اور متمول مسلمانوں کی جائدادیں تباہ ہو گئیں۔ اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے۔ ان ہولناک مظالم کا اعادہ ان مقامات پر بھی کیا گیا جہاں اولا جنگ کی آگ بھڑکی تھی۔اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔اس جنگ کے بعد خصوصا مسلمان زیر عتاب آئے۔ جب کہ ہندوں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت کر لی۔ یوں مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اور خود مسلمان بھی نئی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں سرسید جیسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے اس جنگ آزادی کے وجوہات پر روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ ہندوستانیوں میں موجود احساس محرومیوں کو دور کرکے ہی انگریز یہاں حکومت کر سکتا ہے۔ سرسید نے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔اس جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کر ہندوستان کے لیے لڑے لیکن اس کے بعد انگریز کی سازش اور کچھ ہندوں کے رویے کی وجہ سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے۔ یوں پہلی مرتبہ دو قومی نظریے کی بنیاد پڑی؟

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"