داستان شہادت




" داستان شہادت1857سے 2016 تک" قسط اول

تحریر "کنور اسلام شہزاد 


 میں کون ہوں،کیا کرتا ہوں،میرے آباؤ اجداد کون تھے،کیا کرتے تھے،کہاں سے آئے تھے۔سنو میں کون ہوں؟
 سوچ یہ رہا ہوں آغاز کہاں سے کروں اور اختتام کہاں پہ، ٹھیک ہے تاریخ کے اوراق کو الٹنا شروع کرتے ہیں۔
 میں فکر ہوں اور دیتا چلا آیا ہوں بلا تفریق رنگ و نسل، علم ہوں بانٹا رہا ہوں سب میں یکساں،میں نظریہ 
 حق ہوں،صداء باز گشت ہوں،جو فضاؤں میں بکھر جاتی ہے،دلوں میں اتر جاتا ہوں اور صدائے حق بن جاتا ہوں۔
 میں موسیٰ ہوں جو فکر فرعون کے سامنے ڈٹ جاتا ہوں،میں تیر کر نکل جاتا ہوں اور فرعون ڈوب جاتا ہے ۔
 کمزور ہو کر ظالم کے سامنے ڈٹ جاتا ہوں۔میں ابراہیم ہوں،دلائل سے بات کرتا ہوں،بڑے بت کے گلے میں گھنٹی
 باندھ کر ثابت کرتا ہوں کہ یہ بڑا ہے اس نے سب بتوں کو توڑا ہے پھر جواب آتا ہے یہ کیسے کر سکتا ہے دلیل
 کا جواب دلیل سے دیتا ہوں پھر اسکی پوجا کیوں کرتے ہو۔سب زبانیں دلیل سے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہیں۔
 میں نظریہ دینے والا ہوں،فکر کا امین ہوں اسی لئے اپنے نظریہ سے سب تو پیچھے ہٹ سکتے ہیں،بک سکتے 
 ہیں مگر میں اگر چاہوں بھی تو ایسا نہیں کر سکتا ورنہ زمانہ کہے گا اس کی بات نہ مانو کیونکہ جس کو اپنے
 نظریہ پر یقین نہیں ہم اس کی بات پر کیوں یقین کریں مطلب میں یقین نہیں یقین کامل ہوں۔
 میں مظلوموں کی آواز ہوں،حق کا پیامبر،حسینی قافلہ کا سپاہی ہوں،یزیدیت کا دشمن جبھی ڈرتا نہیں،
 بکتا نہیں،بے شک میری پاس طاقت نہیں،لوگ نہیں،سر تن سے جدا ہو کر بھی نیزہ پر لٹکنے پر بھی لوگ
 کہتے ہیں یہ حسین کے سپاہی کا سر ہے،جو کٹ گیا مگر جھکا نہیں،یہی تو تاریخ ہے طاقتور جیت کر بھی
 ہار جاتا ہے اور مظلوم ہار کر بھی جیت جاتا ہے،جیتنے والا فرعون،شداد،قارون،شداد،ہٹلر کا نام سے یاد کیا 
 جاتا ہےیعنی ظالم کے نام سے اور میرا نام تاریخ میں ہمیشہ عزت و احترام کے نام کے ساتھ۔موسی،ابراہیم۔
 حسین کے نام سے جو ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے کیونکہ میں اس نبی کا پیروکار ہوں جسکا رب اک
 عورت کو اک بلی کو مار دینے پر اسکی تمام عبادت کو باطل کر دیتا ہے اور دوزخ میں بھیجنے کا حکم دیتا ہے
 اور اک شخص کے تمام گناہوں کو صرف اس بنیاد پر معاف کر دیتا ہے کہ اس نے اک کتے کی جان بچائی اور
 جنت میں بھیجنےکا حکم دیتا ہے،جو کہتا ہے اک بے گناہ شخص کے قتل پر اس انسان پر جنت حرام ہے۔
 میں عٰلم ہوں صداقت کا جو بلند کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا میں داعئی حق ہوں صدا حق دیتا رہوں گا۔
 میں نے انگریز جیسےظالم و جابر کےسامنے ہتھیار نہیں ڈالے میںجنگ آزادی کا سپاہی ہوںاور دیکھ کو آزادی
 حاصل کر کے رہا اور سب کو ساتھ لیکر چلا ہندو۔سکھ،عیسائی،مسلم سب حق کے پرچم تکے ایک تھے ۔
 انگریز کو بلا آخر جانا پڑا آزادی دینا پڑی اور میں حق جیت گیا باطل ہار گیا اسکو ہارنا ہی تھا جنگ جذبے
 سے لڑی جاتی ہےاور میرے پاس ہتھیار بھی تھاجو قلم کہلاتا ہے تیز جسکی کاٹ تیز ہوتی ہے بہت تیز ۔
 میری پہچان پوچھتے ہو میں ٹیپو ہوںمیںلڑا اور لڑتے ہوئے شہید ہوگیا میں ہارتا نہیں اگر میرے اندر چند سکوں کی خاطر،اپنے عیش و آرام کے لیئے اپنی مراعات کے لیے قوم سے غداری نہ کرتے مگر دیکھ کو فرق صاف ظاہر ہےتاریخ میںوہ میرجعفر اورمیرصادق کےنام سے پہچانےجاتے ہیںاور تاریخ غداری کرنے والے کو میر جعفر کہا جاتا ہے اور پھرانکاحشر بھی سب کے سامنے ہے بطلب نکل جانے کے بعد انکو بھی قتل کر دیا گیا استعمال کیا گیا
 اور استعمال کرنے کے بعد انکی گردنیں اڑا دی گئیں یہ کہ کے جو اپنوں کا نہ ہوا ہمارا کیسے ہوگا یہ ہے تاریخ؟

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"