"پاکستان کا پیغام 2017"قسط اول

                                    "پاکستانیوں کیلئے پاکستان کا پیغام 2017"
                                     
                 قسط اول
                 تحریر:کنور اسلم شہزاد

آج کیونکہ آنکھیں کمزور ہوگئی ہیں اور انگلش میری مادری زبان نہیں ہے اسلئے اسکا ترجمہ کیسے کرتا اسکا حل یہ نکالا آج کل کے پڑھے لکھے اک لڑکے کو پکڑا اور ترجمہ کروایا اب اس بیچارے کی جو سمجھ میں آیا وہ ترجمہ اس نے کر دیا اور میں نے اسکا ذرا بھی برا نہ مانا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ "گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا۔کہاں سئ آئے صدا لا الہ " اس لئے بس اسکا شکریہ ہی ادا کیا ۔

میں پاکستان بھی 70سال کاہوگیاہوں اور لوگوں نے مجھے بھی میری پیدائش پر بڑی مبارک باد دی تھے بلکہ اب تک دیتے ہیں۔بڑا مغرور ہو جاتا ہوں جب سب پاکستانی اور مجھ سے محبت رکھنے والے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں مجھے میری سال گرہ پر مبارک باد دیتے ہیں،خوشی سے پھولا نہیں سماتا،گردن اکڑ جاتی ہے،سر کو بلند کر کے اور ذرا اکڑا کر اور مغرور ہو جاتا ہوں کہ لوگ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں کہ آج میں 70 سال کا ہو گیا ہوں اور زندہ ہوں بڑی لمبی عمر ہے میری اور جو مجھے مبارک باد دیتے ہیں انکا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور پھر بھی پر امید ہوں،بڑی عاجزی کے ساتھ اور پھر امید کی چھڑی کے ساتھ امیدکرتا ہوں کہ 2017 میں مزید ترقی کی منازل طے کروں گا اور یہ امید ہر سال کرتا ہوں مگر اس امید میں اب میرا یہ حال ہے کہ میں جو پہلے کبھی ترقی یافتہ  ممالک کو قرضہ دیتا تھا پلاننگ دیتا تھا اور آج وہ ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک بن چکے ہیں اور میں قرضہ دینا والا اب اتنا مفلک الحال ہوں کہ قرض لے کر میری کمر جھک چکی ہے،جسم لاغر ہو چکا ہے،ٹانگیں کانپ رہی ہیں،ہاتھوں میں ریشہ آ چکا ہے،آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا،کان سن نہیں سکتے پھر 
جب سالگرہ پر لوگ مجھے مبارکباد دیتے ہیں تو میں پھر امید کی چھڑی کمزور ہاتھوں میں تھام لیتا ہوں اور پھر لڑکھڑاتا ہوا پھر اک امید باندھ لیتا ہوں اور یہ کرتے کرتے میری عمر 70 سال ہو چکی ہے امید ہے 2017 میں مجھ سے محبت کرنے والے 14اگست 2017 کو ملک میں سب کچھ بدل دینگے دیکھیں میری یہ امید یقین میں بدلتی ہے یا نہیں امید پر دنیا قائم ہے اور ناامیدی کفر ہے اور میں کفر کیسے کر سکتا ہوں میں توبنا ہی اسلام کے نام پر تھا اور آج بھی مجھ سے محبت رکھنے والے "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ لگاتےہیںپھرمیںامید کا دامن ہاتھ سےکیوں چھوڑوں،کیوں چھوڑوں۔امید کیا یقین ہے اب بھی کچھ نہ بدلے گا کیونکہ ذہنیت نہیں بدلی تو نظام کیسے بدلے گا وہی نظام وہی لوگ،وہی طبقہ اور جو متوسط طبقہ کے لوگوں کی بات کرتا ہے اسکو ظالم نظام صفحے ہستی سے مٹانے کی ہر ممکن پلاننگ کرتا ہے اور عمل بھی پھر بھی امید ہے کبھی تو صبح ہوگی امید ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"