" الطاف حسین تاریخ ساز شخصیت" قسط اول

   " الطاف حسین تاریخ ساز شخصیت" قسط اول


 تاریخ،مورخ اور قلم بڑے بے رحم ہوتے ہیں اور ظالم حکمران ان تینوں کو پسند نہیں کرتے بلکہ ان کا بس نہیں چلتا کہ ان تینوں کو تختہ دار پر چڑھا دیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹا جا رہا تھا الٹتا جا رہا تھا کہ یک دم قلم رک گیا ۔

17 ستمبر 1953 پرآ کرقلم رک گیا تاریخ ہی ایسی تھی اور شخصیت بھی۔ یہ صرف تاریخ نہیں یہ تاریخ اک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہی تھی ۔ آج محترم نزیر حسین کے گھر محترمہ خورشید بیگم کی گود میں ایک گوہر نایاب آ رہا تھا ۔ دونوں کو ہی معلوم نہیں تھا کہ انکے آنگن میں اک گوہر نایاب آیا ہے جو دینا کی تاریخ بدل دے گا ۔

یہ ننھا منا بچہ "الطاف حسین"تاریخ نہیں تاریخ ساز ہے۔ بادشاہ نہیں بادشاہ گر ہے،اس کے اک اشارہ سے سب چب ہو جائیں گے یہ جس پر ہاتھ رکھے گا وہ زمین سے آسمان پر پہنچ جائے گا ۔
بی- فارمیسی کرنے کے بعد ایم-فارمیسی میں داخلہ لیا لیکن حالات کے تحت یونیورسٹی میں تعلیم جاری نہ رکھ سکے مگر ان تاریخ رقم کر دی اور دوسروں کی خاطر گینے والے کو داخلہ نہ مل سکا مگر دوسروں کو مل گیا ۔

کراچی کے سیونتھ ڈے ہاسپٹل میں بطور ٹرینی کام کیا ایک پاکستانی اور ایک غیر ملکی دوا ساز کمپنی میں ملازمت کی اور پھر اپنے بھائی کے پاس امریکہ چلے گئے اورڈیڑھ سال بعد واپس پاکستان آئے ۔ 1970 
 میں نیشنل کیڈت اسکیم کے تحت  ٹریننگ حاصل کی اور بعد میں 57 بلوچ رجمنٹ میں شامل رہے سندھ اور بلوچستان کے علاقےمیں تربیت حاصل کی مگر مشرقی پاکستان مین حالات خراب ہو جانے کے بعض مشرقی پاکستان نہ جا سکے اور دشمن کی فوج کے دانت کھٹے کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی ۔ نام کیونکہ الطاف حسین تھا اسلئے تربیت بھی  Battle یعنی دو بدو جنگ کی حاصل کی یعنی شہادت یا دشمن واصل جہنم ۔

وطن کی محبت میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نطام مصطفے میں بطور کارکن حصہ لیا لیکن ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کو قومی اتحاد ایکشن کمیٹی کا صدر اور پھر جنرل سیکٹریری مقرر کیا ۔
لیکن جاعت اسلامی کے لوگوں کی منافقانہ پالیسی کی تحت ان کو آگے نہٰیں بڑھنے دیا گیا ۔

 11 جون1978 کو ال پاکستان مہاجراسٹوڈینٹس آرگنازیشن کی بنیاد ڈالی اور پھر جامعہ کراچی میں جمعیت کے غنڈوں نے کام نہ کرنے دیا گیا اور مہاجر طلبہ اور اپنے کارکنان کو بچانے کی خاطرجامعہ کراچی میں کام بند کرنے کے ساتھ علاقوں میں پھیلنے کی حکمت عملی تیار کی تاکہ کارکنان کی جانیں ضائع نہ ہوں  سیاستدان
تولاشوں پر سیاست کرتے ہیں مگر یہ سیاست نہیں اک تحریک کے قائد ہیں اسی لئے کارکنان کو قربان نہ کیا۔

کسی بھی تحریک کے لیے اک قائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے جواک فکر دیتا ہے اک فلسفہ دیتا ہے اور اک سب سے اہم چیز قائد پر اندھا اعتماد دیتا ہے اور کارکنان اپنے قائد پر اندھے اعتماد کی بدولت اپنی منزل کو پاتے ہیں

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں سب منحرف ہو سکتے ہیں اپنے نظریے سے مگر نطریہ دینے والا اگر چاہے تو اپنے نظریہ سے انحراف نہیں کر سکتا کیونکہ وہ نظریہ کا خالق ہوتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ نظریہ دینے والا اپنے نظریہ سے منحرف ہو جائے اگر وہ خود ایسا کرے گا تو پھر کون اس کی فکر۔ نظریہ پر یقین کرے گا ۔

تحریر لمبی نہ ہو اسلئے آج قسط اول کو یہیں ختم کرتے ہیں انشااللہ دوسری قسط میں آگے گفتگو ہوگی ۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"