"تاریخ تم لکھ رہے ہواور قوم دیکھ رہی ہے"

                                      "تاریخ تم لکھ رہے ہواور قوم دیکھ رہی ہے"   

           
اک تاریخ تم رقم کر رہے ہو وہ بھی انوکھی تاریخ مگر قوم دیکھ رہی ہے خاموش ہے وہ چاہ رہی ہے تم آخری حدوں کو بھی پار کر جاؤ لیکن یاد رکھو جو بو رہے ہو وہی کاٹو گے، ببول کے درخت کی کاشت کر رہے ہو تم یاد رکھنا ببول کے کانٹوں میں دامن پھنس کیا تو لباس تار تار ہو جائے گا اور اگر پاؤں میں گھس گیا تو پھر نکلتا نہیں۔
تم نے توعبداللہ بن ابی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا منافق ہو گیا تو کہتا تھا ہاں ہوں تم تو اس سے بھی آگے نکل گئے؟
میرجعفرنے ٹیپو کے ساتھ غداری کی اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا تھا توپ میں بھوسہ بھر دیا تھا مگر یہ تو نہیں کہا تھا ہم ٹیپو کے ساتھ نہیں تھے مگر تم نے تو حد ہی کر دی انکاری ہو گئے ہم تو اس اپنے باپ سے ؟
واہ کیا بات ہے اپنا نام وہی رکھا باپ سے انکاری ہو گئے مگر یاد رکھو تم بھی باپ ہو،بیٹے ہو،شوہر ہو کل کو تمھاری اولاد ایسا کرے تو کیا گزرے کی دل پہ کتنی تکلیف ہوگی ۔ باپ نے تم پت اعتبار کیا، اختیار دیا لو میں خاموش ہو جاتا ہوں ، تم چلاؤ گھر میں نے تربیت کی ہے میرا نام روشن کرو گے مگر یہ کیا عزت راس نہ آئی؟
تم اک دن رات کو گئےاورجب واپس آئے تو تم کو باپ کے مقابل کھڑا کر دیا گیا اور تم کھڑے ہو گئے شرم نہ آئی تم کو فرمائشی پروگرام کا کہا گیا اور تم آداب بجا لائے درباری کی طرح اور جی حضور جی حضور کرنے لگے؟
آداب بھی بھول گئے تم سے وہ سب کچھ کروایا جا رہا ہےجس کی خواہش برسوں سے تھی جو بڑے بڑے طرم خاں نہ کر سکے وہ تم کر رہے ہو اور ہنس ہنس کےشرمندگی کی رمق بھی نہیں چہرہ پر نہ ملال کرو،خوب کرو
تم سے فرمائش کی گئی باپ کا نام اپنے نام سے ہٹا دو تم کے کہا جی حضور،تم سے کہا جھنڈے سے کاٹ دو کر دیا۔ تم سے کہا باپ کے اختیارات ختم کردوتم نے وہ بھی کردیا۔باپ سے اظہار لاتعلق کر دو، کر دیا تم نے، پھر کہا گیا کہو تمھارا باپ غدار ہے اس پر ریاست غداری کا مقدمہ چلائے تم 4 قدم آگے بڑھ گئے خود ہی مقدمہ لیکر عدالت چلے گئے اور عدالت سے کہا ہم آئے ہیں باپ کے مقدمے کا فیصلہ سناؤ،سننا دیا گیا ؟
میرجعفر نے اپنی ثقافت نہیں بدلی تھی ارے تم نے تو اس کو بدل دیا کہا گیا کرتا پاجامہ کی جگہ شلوار قمیض پہنو تم سے کہا گیا اور تم نے فرمان جاری کر دیا، اب آو تو شلوار پہن کر آنا ارے اتنا گر گئے ؟
یاد رکھو تاریخ تمھارے سامنے ہے ہلاکو نے غداروں کے سروں کے پشتے لگا دیے تھے، کل تم سے کہا جائے گا بیٹھ جاؤ، پھر کہا جائے گا گھٹنوں کے بل بیٹھ جاؤ، تم بیٹھ جاؤ گے پھر کہا جائے گا،جوتوں کو چاٹو، تم چاٹ لو گے اور پھر کہا جائے گا لیٹ جاؤ تم لیٹ جاؤ گےاور پھر فرمائش ہوگی اپنا لباس اتار دو تم اتار دو گے، قہقہقہ لگے گا ننگا کر دیا نہ تم کو اور لباس بھی تم نے اپنے ہاتھوں سے اتارا ہے پھر آواز آئے گی یہ غدار ہیں تم اپنے باپ کے نہ ہوئے ہمارے کیا ہوگے اپنی قوم کے نہ ہوئے ہمارے کیا ہوگے،گھوڑا اگر کام کا نہ رہے تو اسکو گولی مار دی جاتی ہے پھر حکم آئے گا مار دو گولی اور پھر گولیوں کی تڑتڑاہت ہوگی اور تمھرا جسم زمین پر تڑپ رہا ہوگا اور پھر قہقہ بلند ہوگا ویل ڈن اور ساتھ ہی اک آواز قوم کی"گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے"ا ور پھر صدا آئے گی"حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے۔ بس کر دو بس ؟


Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"