" الطاف حسین تاریخ ساز شخصیت" قسط دوئم

" الطاف حسین تاریخ ساز شخصیت" قسط دوئم

 قائد تحریک اور بانی کا 63 یوم پیدائش ہے اور میں قائد تحریک اور بانی محترم الطاف حسین بھائی کو انکے 63 ویں یوم پیدائش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور الطاف بھائی سے درخواست ہے وہ میرے لئے دعا کریں کہ میں ثابت قدم رہوں۔ مجھے فخر ہے اور یہ اعزاز بھی مجھے حاصل ہے کہ قائد تحریک نے میری اکیلے میں ایک ہی فکری نشست لی تھی وہ ایک فکری نشست نے میری دنیا ہی بدل دی اور 1984 سے اب تک ثابت قدم ہوں۔

آیئے جائزہ لیتے ہیں قائد تحریک کا کے آباو و اجداد کون تھے تو سر ٍفخر سے تن جاتا ہے ۔ آپکے والد محترم نذیرحسین انڈیا میں اسٹیشن ماسٹر تھے اور انڈیا سے پاکستان منتقل ہونے کے بعد آپنے اک مل میں آفس ورک کرتے تھے ۔آکے دادا جان محترم محمد رمضان آگرہ(یوپی۔ کے مفتی تھے اور نانا جان محترم رحیم بخش  جید عالم تھے اور والدہ  محترمہ خورشید بیگم اک نیک خواتون تھیں اور اولاد کی تربیت میں کوئی کمی نہ آنے دی ۔

قائد تحریک محترم الطاف حسین بھائی کے سر سے والد کا سایہ 13 مارچ 1967 اور والدہ بھی 5دسمبر 1985 کو خالق حقیقی سے جا ملیں اور اس طرح آپ یتیم بھی ہو گئے اور یسیر بھی  مگر ثابت قدم رہے اور اپنے سفر کو جاری رکھا۔ 

تحریک کا کام اس شکصیت نے کیسے کیا یقین نہیں آتا یہ کون ہے اتنی ہمت کہاں سے آئی ہے جو نہ بکتا ہے اور نہ جھکتا ہے اور ملک کے عسکری اداروں کے لوگ خود بریف کیس لیکر انکے گھر جاتے جاتے تھے مگر یہ کیسا شخص ہے جو دولت واپس کر دیتا ہے اگر یہ را کا ایجنٹ ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے ادارے اک"را" کے ایجنٹ کے پاس کیوں گئے کیا لینے گئے اور جب پاکستان فوج کے اعلی افسران خود قائد تحریک کے گھر بریف کیس لیکر گئے تو قائد تحریک کو کیا ضرورت ہے کہ جب وطن کے محافظ خود اسکے گھر پیسے لیکر آتے ہیں تو الطاف حسین کو کیا ضرورت ہے کہ وہ سرحد پار جا کر ہندوستان جائے اور وہاں کی ایجنسیوں سے پیسے حاصل کرے جب ملک کے ادراے محترم الطاف بھائی کو نہ خرید سکے اور جب انکو معلوم ہو گیا یہ شخص خریدا نہیں جاسکتا اور یہی وہ وجہ ہے کہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے لیکر عسکری ادارے جانتے ہیں یہ بن مول تو بک سکتا ہے مگر اسکی قیمت نہیں لگائی جا سکتی تو پھر طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی اور پھر جناح پور کی کہانی پیش کی گئی اور میڈیا کے زرخرید صحافیوں کے سامنے جناح پور کے نقشے ٹاچر سیل اور نہ معلوم کیا کیا مگر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے پہیہ پھرگھوما اور قدرت دیکھیں 10 سال بعد پھرپاکستان کےعسکری ادرے کے برگیڈیر امتیاز خود اعتراف کر رہے تھے چشم فلک دیکھ رہے تھی پاکستان اور دنیا کے عوام۔ حکومتیں اور دنیا کے عسکری ادراے دیکھ رہے تھے کہ اک محب وطن کو اپنے ہی ملک کی ایجنسی جو دنیا کی نمبر 1 ایجنسی آئی ۔ ایس ۔آئی خود اپنی بچھائے ہوئے جال کا خود
اعتراف کر رہی ہے اور وہ بھی لائیو پروگرام ڈاکٹردانش کے سامنے بیٹھے اپنے جرم کا اقرار کر رہے تھے اور
بتا رہے تھے یہ سب ایم - کیو -ایم اور قائد تحریک محترم "الطاف حسین" سے عوام اور دنیا کو انکی طرف سے بد دل کرنے کے لئے کر رہے تھے تو پھر اک سوال اور جنم لیتا ہے کہ آخر یہ پاکستان میں ہی یہ کیوں ہوتا ہے کہ ہر محب وطن پاکستانی جی ۔ ایم - سید سے لیکر شیخ مجیب الرحمان تک کیون سب کو غدار بناتے رہے اور نہ صرف انکو محب وطن سے غدار بنانے کا یہ عمل کب تک جاری رہے گا ۔

یہ کیوں دیکھا جاتا ہے یہ کیا کہ رہا ہے یہ کیوں نہیں دیکھا جاتا یہ کیوں کہ رہا ہے وجوہات کیون نہٰن دیکھی جاتی اور ان کو حل کرنے کا عمل کیوں نہیں کیا جاتا اور پھراسی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہم قائد اعظم کے پاکتان کو 1971 میں دو لخت کر دیا۔ دنیا نے دیکھا کہ بنگالیوں کو 4 فٹ کہنے والوں کو آج 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہیں اور انکے پرچم کو لہرا کراسکو سلامی دی جاتی ہے ۔ کیا بنگالی صحیح کہتا تھا اسے اسلام آباد سے پٹ سن کی بو آتی ہے اور آج باقی ماندہ پاکستان میں بلوچستان سے سرحد تک بے چینی پائی جاتی ہے۔

وقت کی نزاکت اور پاکستان کو بچانے کا وقت ابھی ہاتھ سے نہیں گیا ہے سب کو بٹھائیے ان کی شکایات کو سنیے اور ان کے جائز مطالبات کو پورا کر دیجیے قائد اور بانی بن مول تو بک سکتے ہیں مگر کوئی دھونس دھمکی انکے پائے استقلال میں جنبش پیدا نہیں کر سکتے بلوچستان سے لیکر سندھ کے تمام ان افراد کو جن کو شکایتیں ہیں بٹھائیے سنیے اور انکو صدق دل سے حل کریں سب ساتھ ہونگے اور پھر اس گلدستے سے چار سو خشبو پھیلے گی ضرور پھیلے گی اور اسطرح پاکستان مضبوط ہوگا ۔ 

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"