"اہل کراچی غدار مگر پیٹ سب کا یہی بھرتے ہیں "

           








 "اہل کراچی غدار مگر پیٹ سب کا  یہی بھرتے ہیں "                         


آج کراچی دنیا میں پشتونوں کا سب سے بڑا شہر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اِتنے پشتون پشاور یا کابل میں نہیں رہتے جتنے کراچی میں رہتے ہیں۔ 

پاکستان کے شمالی علاقوں میں جہاں جہاں جنگ چھڑی یا اُس پر مسلط کی گئی ، جہاں لوگ بےگھر ہوئے اُن کی اب شہری نسل کراچی میں جوان ہو رہی ہے اور شمال سے ایک نئی نسل کی آمد کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ یقیناً اِن میں سے بہت سی آبادی پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرف بھی ہجرت کر گئی ہو گی لیکن زیادہ تر کی منزل کراچی ہے۔ کراچی کو غریب پرور شہر قرار دیا جاتا ہے کیونکہ 50 روپے میں پیٹ بھر جاتا ہے ۔

ایک بزرگ پشتون سیاستدان کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ پٹھان کا ٹرک پشاور سے چلے اور کراچی تک پہنچے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ٹرک راستے میں کیوں نہیں رُکتا؟ پنجاب میں فیصل آباد ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ جیسے شہر ہیں جہاں روزگار کے مواقع موجود ہیں فاصلہ بھی کم ہے۔

کراچی والوں کا دِل بہت بڑا ہے لیکن کسی سائنسی ریسرچ نے یہ ثابت نہیں کیا کہ کراچی اور پنجاب کے رہنے والوں کے دل کے سائز میں کیا فرق ہےاور اہل کراچی غدار ہونے کے بعد بھی ہر اک کو گلے کیوں لگاتے ہیں۔

ایک خاندان آتا ہے تو اُس کے پیچھے دس خاندان اور آتے ہیں اور کراچی میں بھی جرگہ فیصلہ کرتا ہے کیوں؟

 کراچی میں ٹرک چلانے والا بھی بیٹی کو ڈاکٹر بنا سکتا ہے۔ سرداری سے محروم ہونے والا بھی رکشہ چلا کر گزارا کر سکتا ہے۔ کراچی اُن اُجڑے ہوئے لوگوں کے لیے ایک نئی زندگی کی اُمید ہے جِن کے گھر تو ہماری ریاست نے تباہ کر دیے لیکن اُن کے لیے کوئی کیمپ بنانا بھول گئی اور ویسے بھی اگر کراچی موجود ہے تو کِسی کا دماغ خراب ہے کہ حکومت کی خیرات پر کِسی خیمے میں رہے۔

کراچی کا دِل بڑا ہونے کی افواہ سرائیکی علاقوں تک بھی پہنچی اور اب محتاط اور غیرمحتاط اندازوں کے مطابق کراچی سرائیکیوں کا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔

وہاں اگرچہ بظاہر کوئی جنگ نہیں ہوئی لیکن زراعت کے شعبے میں ایسا زوال آیا ہے کہ ہاری ، دہاڑی دار بلکہ بعض چھوٹے رقبے کے مالک زمیندار بھی اپنے گھروں کو چھوڑ کر کراچی آنے پر مجبور ہوئے۔
کراچی کی آبادی کی گِنتی ایک حساس مسئلہ ہے (یعنی ہمیں اِس بابت بھی ڈر لگتا ہے کہ ہماری تعداد کِتنی ہے اور ہم میں سے کون کہاں سے آیا ہے) اِس لیے کوئی وثوق سے نہیں بتا سکتا کہ کراچی میں کتنے پرانے مہاجر ہیں اور کتنے نئے لیکن یہ بات طے ہے کہ اہل لاہور کی میزبانی کے چرچے یا تو پاکستان کے جنگ زدہ علاقوں تک پہنچے نہیں یا مجبور لوگوں کو اُن پر یقین نہیں آیا۔

کراچی کی معیشت بہت زیادہ بڑی ہے اور پوٹینشل اُس سے بھی زیادہ بڑا ہے؟

ملک کی طرح کراچی میں بھی کئی لوگ ایم کیو ایم کو تمام مسائل کی جڑ اور رینجرز ہر مرض کی دوا لگتے ہیں لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ کراچی میں رینجرز ایم کیو ایم کے قیام کے چار پانچ سال بعد ہی آ گئی تھی۔
چور سپاہی کا یہ کھیل اِتنا پرانا ہو چکا ہے کہ اکثر لوگ کنفیوز ہو جاتے ہیں کہ چور کون ہے اور سپاہی کون؟ ا وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کراچی شہر کہ اندر اِتنے شہر ہیں کہ اب لوگوں نے اُن کے نئے نام بھی رکھنے چھوڑ دیے ہیں۔

کراچی پریس کلب کے باہر ایک خاندان کو احتجاجی مظاہرہ کرتے دیکھا۔ لڑکی اغوا ہو گئی ہے ، تھانیدار لڑکے سے مِلا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا کہاں سے آئے ہوئے جواب مِلا میانوالی سے۔ میں نے پوچھا اغوا میانوالی می  وہاں کیوں نہیں کیا آواز آئی کراچی والا میانوالی جِس کا نام ہے نیو میانوالی۔
نیا پاکستان تو جب بنے گا تو بنے گا، کراچی میں بہرحال ایک نیو میانوالی وجود میں آ چکا ہے اور روزگار کی تلاش لوگوں کو پرانے میانوالی سے نئے میانوالی تک لاتی رہے گی۔ 

روزگار کی تلاش کراچی کے پرانے باسیوں کو بھی کراچی کے ایسے حصوں میں لے جاتی ہے جو ابھی کراچی بن رہے ہیں جن کے نام ابھی رکھے جا رہے ہیں۔

ایک انجینیئر دوست کو نئی نوکری مِلی۔ شکایت کر رہے تھے کہ سفر بہت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہاں نوکری ملی، بولے غداروں کے شہر میں۔کیا مطلب"کراچی" میں ۔

میں نے کہا کیا واقعیکراچی "غداروں کا شہر ہے۔بولا ہاں اورتم بھی غدار ہو کیا کہنے لگا نہیں پھر غداروں کے شہر میں نوکری کیوں کر رہے ہو چلے جاؤ یہاں سے کیسے جاؤن پیٹ کا معاملہ ہے پھر اس تھالی میں چھید کیوں کرتے ہو جس میں کھاتے ہو؟ 

پاکستان کی تخیل میں کراچی وہ جگہ  ہے جہاں سے کوئی اچھی خبر نہیں آتی لیکن جب پیٹ کا مسئلہ ہو توسب کراچی ہی کیوں آتے ہیں یعنی سب کو گلے لگانے اور روزگار دینے کی بعد بھی غداری کا سرٹیفیکیٹ بھی اہل کراچی کو ہی ملتا ہے ۔

کراچی ملک کو چلاتا ہے اور پورے ملک کے تمام اداروں کی تنخواہیں میں بھی 70 فیصد اہل کراچی دیتے ہیں اور ایم کیو ایم کے قائد محترم الطاف حسین بھائی کے گھر کے سامنے ہی پٹھان کا ہوٹل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ الطاف حسین بھائی کو کسی قومیت سے نفرت نہیں ہے بلکہ اس نظام سے نفرت کرتے ہیں جو پاکستان میں بسنے والے تمام قومیت کے افراد کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اورنفرت الطاف حسین سے اس لئے ہے کی اگرپاکستان میں یہ نظام آ گیا آ گیا توان سب کی روزی روٹی روزی کیسے چلے گی۔

رحمتیں نازل ہوتی ہیں اغیار کے کاشانے پہ برق گرتی ہے تو بیچارے مہاجروں پہ

شکر ہے یہ اشعار شاعر مشرق،ترجمان حقیقت حضرت علامہ اقبال کے ہیں مہاجر شاعر کے ہوتے تو بغاوت کا مقدمہ اسکے موت کے بعد بھی چلتا ۔

پہلے کہا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا ۔ ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا

پھر مسلمان بن گئے اور فورا کہا۔ چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا ۔ مسلم ہیں وطن ہے سارا جہاں ہمارا

اب بھی وقت ہے بیٹھ جاؤ حقیقت کو تسلیم کر لو اب تو لندن کی عدالت نے بھی جھوٹا الزام ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا اک ہماری عدالتیں ہیں ثابت آج تک نہیں کر پائیں مگر ڈھول ضرور پیٹا جا رہا ہے ۔ پیٹے ذرا زور سے؟

آج پاکستان کے تمام اینکرز، اسٹیبلشمینٹ اور تمام اداروں کے چہرے لٹک رہے ہیں ۔ نثار صبر کرو صبر ۔

قران کی اک آیت ہے اللہ جس کو چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت، بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

کل کے منی لانڈری کیس میں کیا ہوا دنیا نے دیکھ لیا ہم کچھ کہیں گے تو شکایت ہوگی ۔اللہ حافظ ۔

تحریر : کنور اسلم شہزاد 14 اکتوبر 2016

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"