"طاقت کا استعمال دیکھتا چلا گیا"

                                     



     "طاقت کا استعمال دیکھتا چلا گیا"



                                           "طاقت کا استعمال دیکھتا چلا گیا"


الطاف حیین کا باب ختم ہو گیا۔ ایم۔کیو۔ایم ختم ہو گئی۔ کوئی ساتھ نہیں ہے انکےساتھ کوئی نہیں ہے۔
لوگ ایم۔کیو-ایم کے ساتھ نہیں،رابطہ کمیٹی کیسے بنے گی لوگ ہی نہیں ہے،جانزیب خان زاداہ، کاشف عباسی۔
بادامی کے چہرے دھواں دھواں ہو رہے تھے شرمندی ان کی باتوں سے صاف ظاہر نظرآرہی تھی  ۔کف افسوس۔
پہلے کہ رہے تھے یہ لندن کی عدالت ہے یہاں کوئی نہیں بچ سکتا واقعی وہ لندن ہیں وہاں ریاستی ادارے الزام 
لگا کرگرفتار نہیں کرتے،ڈراتے نہیں ہے جس پرالزام ہوتا ہے اسکو بتایا جاتا ہے عدالت میں صفائی کا موقعہ دیا جاتا ہے۔

لندن میں الزام ثابت ہونے تک مارا نہیں جاتا ادارے کے لوگ اس کو گاڑی میں نہیں ڈالتے،بٹ نہیں مارتے،تشدد نہیں کرتے،چیرہ نہیں لگایا جاتا،لاش کہیں پڑی نہیں ملتی،لاپتہ نہیں کیا جاتا بچوں اور بیوی کو بتایا جاتا ہے انکا بیٹا،بھائی،باپ کہاں ہے،کون لیکر گیا ہے،ملاقات کروائی جاتی ہے،ملایا جاتا ہےاور تفیش کے بعد وہ گھر جاتا ہے ۔

منی لانڈرنگ کا شور اٹھ رہا تھا ،نجم سیٹیھی کی چڑیا نے بتایا تھا بس سزا ہو رہی ہے،میڈیا ٹرائل،طوفان 
بدتمیزی ساری حدیں پھلانگ گئے اور پھر کھودا پہاڑنکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا، عدالت نے سنا،دیکھا۔ثبوت مانگے اور جب ثبوت نہ مل سکے تو ایم-کیو-ایم کےقائد،بانی محترم الطاف حسین بھائی کو باعزت بری کر دیا ۔

ماتم نہ ہوتا تو کیا ہوتا ستے ہوے چہرے،ندامت صاف نظر آ رہی تھی کیونکہ تھپڑ بہت زور دار بلکہ زناٹے کا تھپڑ پڑا اور دنیا میں بدنامی، شرمندگی مگر شرمندہ تو وہ ہوتے ہیں جن کے پاس شرم و حیا ہوتی ہے ۔

کاشف عباسی،خانزادہ پوچھ رہے تھے کب ہوگا رابطہ کمیٹی کا اعلان ،کون آئے گا اور آج جب 3 بجے میٹرو ہوٹل کراس کیا تو دیکھا قانون نافذ کرے والے مستعد کھڑے تھے آگے گیا تو دیکھا مستعد کھڑے جوان ایسا لگ 
رہا تھا یہاں ابھی کوئی حملہ کرنے والا ہے روڈ بند رینجرز کی بھاری نفری کھڑی تھی،پریس کلب کا گیٹ بند تھا اور پریس کلب سےاند سے ہی گرفتار کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں تھی مگر پریس کلب کی انتظامیہ نےواضع کر دیا تھا ہم آپکو اندر نہیں آنے دیں گے گرفتار کرنا ہو تو باہر سے کر لینا ۔

کارکنان کو جانے نہیں دیا جا رہا تھا ۔میڈیا دکھا رہا تھا اور میری آنکھیں دیکھ رہیں تھیں بڑی بڑی سفید داڑھی والے الطاف حسین زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے،بہنیں بھی اندر مجود تھیں بھائی بھی اور چاروں اطراف کارکنان کھڑے ہوئے تھے،انکھوں نے اک منظر دیکھا اک کار جس میں خواتین سوار تھیں پریس کلب کے پاس رکی اور رینجرز نے خوانین کو کار سے نہیں اترنے دیا اور وہ بہنیں آگے گئیں گاڑی روک کے کھڑی ہو گئیں اور بھائی کی تقریر سنی،پھر آنکھ نے دیکھا اک جھنڈا لہرایا اور اس پر الطاف حسین لکھا ہوا تھا لہرایا اور لہراتا چلا گیا جس کے نام،تقریر،تحریر پر جبری پابندی ہے لکھا نظر آ رہا تھا وہ تھا الطاف حسین اور آنکھ دیکھ رہی تھی اور میڈیا بتا رہا تھا رینجرز کی بھاری نفری نے پریس کلب کو گھیرا ہوا تھا اور قائد کے ساتھی دور ہے تو کیا ہوا دلوں میں ہے بسا ہوا کے نعرے لگا رہے تھے اور بھائی کے نامزد کردہ رابطہ کمیٹی کے ذمہداران کو سن رہے تھے پھرخبر چلی اندر والے باہر آتے ہی گرفتار ہو جائیں گے 3 کا نام بھی میڈیا نے دیے دیکھ رہا تھا یہ کیا ہو رہا ہے ریاستی تششد کے باوجود لوگ جا نہیں رہے تھے آگے بڑھ رہے تھے ۔

آنکھ دیکھ رہے تھی اور ابوالکلام آزاد کے تاریخی الفاظ دماغ میں گونج رہے تھے تم کہاں جا رہے ہو مت جاؤ،اکیلےرہ جاؤ گے،تمھارا رہن سہن الگ ہے اکیلے رہ جاؤ گے اور سب تم کو مار رہے ہونگے ۔

آنکھ دیکھ رہے تھی تاریخ کے صفحات پلٹ رہے تھے اور دیکھ رہا تھا دنیا کا پہلا اور آخری ملک پاکستان کو بنانے کی تحریک اقلیتی صوبوں سے چل رہی تھی دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوا کہ آزادی کی تحریک اقلیتی علاقوں سے چلی ہوں اور کہیں نہیں ہوا کہ بھائیوں نے خود بہنوں کے لیے کنوئیں کھودے ہو اور ان کو معلوم ہو اس کنوئیں میں ان کی بہنوں کو کودنا ہے اور تاریخ لکھی گئی 1لاکھ نہیں،2 نہیں 30 لاکھ جانوں کا نذرانہ دینے والوں کی اولاد کو غدار کہا جا رہا ہے دیکھتا رہا جبر ناکام ہو رہا تھا اور الطاف بھائی کے چاہنے والے بھائی۔ بہنیں۔بزرگ نعرے لگا رہے تھے الطاف حسین زندہ باد ، وہ دور ہے تو کیا ہوا دلوں میں ہے بسا ہوا ۔

دیکھتا رہا اورپھراک بوڑھی عورت کی آواز آئی یہ جن ہے جن تم ان کو شکست نہیں دے سکتےیہ پاگل ہیں
اگر ان کو اور دباؤ گے یہ اور زیادہ پاگل ہو جائیں گے یہ جان دینا جانتے ہیں یہ تمھارے بس کی بات نہیں ۔

سچ کہ رہی ہے یہ بڑھیا دکھتا رہا اور پھر دیکھتا چلا گیا لوگ تھے سن رہے تھے سچ کو اور گھر چل دیا ۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"