"دروازےکھول دواندھیرا کردو"


   "دروازےکھول دواندھیرا کردو"


 اگست 2015 کومیں نے یہ تحریررات 1 بجکر7 منٹ پر لکھی تھی جب بانی اور قائد تحریک محترم الطاف حسین بھائی نے ان غداروں کی نشاندہی کی تھی جو قائد بہت پہلے جان چکا تھا کیا ہونے والا ہے کون کرنے والا ہےاک چانس آخری چانس دیا تھا مگر کتے کی دم 100 سال بعد بھی برف سے نکالو تو ٹیرھی ہی رہتی ہے۔

آج تجدید عہدہ وفا کرتے ہوئے آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔
تاریخ میں پڑھا تھا اورآنکھوں سےاوراق پرلکھا دیکھا تھا حق کا قافلہ ظالم کے مقابلہ کے لیئے جا رہا تھا کوفہ کے مظلوم لوگوں نی حضرت امام حسین علیہ السلام کو داد رسی کے لئے خط لکھا آپ آ جائیں اور ہماری مدد کریں ۔ 

تاریخ اور مورخ بڑے ظالم ہوتے ہیں، حقیقت لکھ دیتے ہیں اور وہ اوراق پر منتقل ہوتی ہے تو تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے نئی تاریخ لکھی جا رہی تھی حکم ہوا کوچ کرنا ہے قافلہ روانہ ہوا،قافلہ میں شامل افراد میں بچے،بوڑے، جوان، خواتین موجود تھیں قافلہ چل دیا پھر رات ہوئی اور سب اہنے اپنے خیموں میں جمع تھے ۔

قافلہ حسین سے آواز آئی سب باہر آ گئے پھر آواز آئی خیموں کے پردے اٹھا دیے جائیں اور ساتھ ہی گرجتی آواز سنائی دی ہم حق کی جنگ لڑنے جا رہے ہیں واپسی ناممکن نظر آتی ہے، رات کا اندھیرا ہے جس کو جانا ہو چلا جائے کوئی جواب طلبی نہیں ہوگی، کوئی جائے نہ جائے میں جاؤں گا اور راہ حق میں شہید ہو جاؤں گا ۔

تاریخ اپنی آپ کو دہراتی ہے حق کی راہ کانٹوں کی سیج ہے،جسم لہولہان ہو جاتا ہے، ماں باپ، اہل و عیال سے دوری ہو جاتی ہےاوریہ بھی ہوتا ہے بیٹا،ماں،باپ،بیٹا،بیٹی، بیوی کے جنازے کو بھی ہوتے ہوئے کاندھا نہیں دے سکتا ان مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے اور پھر آنکھیں منظر دیکھ رہی تھی قائد کے فکر اور فلسفہ کو کارکنان مان رہے تھے مگر ذمہ داران اپنا پیٹ بھر رہے تھے،قائد نے کارکنان کو بتایا یہ ہو رہا ہے ۔

کارکنان کوالطاف بھائی کے 1996 کے خورشید میموریل ہال میں منعقدہ جنرل ورلر اجلاس یاد آ گیا ۔ قائد و بانی الطاف حسین بھائی فرما رہے تھے مجھے معلوم ہے" تم ایک دن میرا ساتھ چھوڑ جاؤ گے، لیکن میں اکیلا ہی لڑوں گا اور جو میرے وفادار ساتھی ہونگے وہ میرے ساتھ چلتے رہیں گے، چاہے انکو کتنا ہی نقصان ہو جائے" 20 سال پہلے جو جان لے کیا ہو رہا ہے وہ قائد تحریک آج بھی جانتے ہیں وقت کا انتظار ہے ۔ 

قائد تحریک کی نگاہوں نے 20 سال پہلے ہی جان لیا تھا ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کیا ہونے جا رہا ہے اور کارکنان کو متنبہ بھی کر دیا تھا اور نظریاتی ساتھیوں کے کان کھڑے کر دیے تھے کہ اگر یہ ہوا تو تم کو میرا دست و بازو بننا ہوگا اور پھر کارکنان کو معلوم ہوا تو وہ قابو نہ رکھ سکے منطر پھر بدلا ۔

قائد تحریک و بانی الطاف حسین بھائی نے  جنرل ورکر اجلاس بلایا لائٹ بند کرنا کا حکم دیا، اندیرا چار سو پھر آواز آئی"اندھیراکر دیا گیا ہے جس کو جانا ہے چلا جائے، کچھ نہیں کہا جائے گا، نہ سوال ہوگا نہ جواب مانگا جائے گا، چلا جائے جس کو جانا ہے چلا جائے "کارکنان نے روشنی میں دیکھ لیا تھا کون چلا گیا ہے، کون جانے والا ہےاور کون چلا گیا ہے مگر میر جعفر کا کردار ابھی ادا کرنا ہے۔ توپوں میں بھوسہ بھرنا باقی ہے ۔

اب بھی وقت ہے جس کو جانا ہے چلا جائےکارکنان جانتے ہیں اور قائد کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہیں۔

اب بھی اگرکسی کوچاہے وہ سی- سی میں ہو ،رابطہ کمیٹی، سیکٹر،یونٹ یا کمیٹی ممبران ارے سب چلے جاؤ قائد موجود ہے اچھا ہے خود ہی چلے جاؤ تاکہ پھر جو ساتھی بچیں وہ اپنے محبوب قائد و بانی محترم الطاف حسین بھائی کی قیادت میں اپنے سفر کا آغاز کر سکیں اپنی گردنوں میں پڑی راڈوں کو خود ہی نکال دیں محبت اورخلوص کے ساتھ تحریک اورقائد تحریک کےپیغام کو آگے بڑھا کے"ساتھی" ہونے کا ثبوت دیں،

 قائد تحریک محترم الطاف حسین بھائی کےاس قول کو گرہ میں باندھ لیں پھر دیکھیں اللہ کیسےمدد کرتا ہے۔

                              "طاقت کو خدا کا عطیہ سمجھو، خود کو خدا مت سمجھو"

اللہ تعالی ہم سب کو ثابت قدم رکھے اوراپنی امان میں رکھے اورقائد سا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔آمین۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"