"یہ خستہ عمارتیں، قلعہ تعمیرات نہیں ٹوٹیں"

               

 "یہ خستہ عمارتیں، قلعہ تعمیرات نہیں ٹوٹیں"


اشیاء کےٹوٹنےکاعمل اور وہ بھی حلال کمائی سے کمائی گئیں جس میں خون بھی شامل ہو اور پسینہ بھی ٹوٹ 

جائے تو لمحہ بھر کو وہ فرد سکتے میں آ جاتا ہے یا اللہ یہ کیا ہو گیا اور پھر دل جس کرب کی کیفیت سے گزرتا 

ہے یہ وہی شخص جان سکتا ہےجس کا ساتھ یہ تکلیف دہ کیفیت پیش آئے اسکی کسک، جلن،ٹوٹتے ہوئے 

وقت صرف چیز ہی نہیں وہ خود ٹوٹ رہا ہوتا ہے، جان سولی پر اٹکی ہوتی ہے اور ہاتھ دعا کے لیے خود بخود 

اٹھ جاتے ہیں یا اللہ مدد فرما اس کو ٹوٹنے سے بچا لے اسی وقت آواز آتی ہے اے انسان" اب کیوں ہاتھ اٹھا رہا

ہے ہم نے تو تجھے نعمت دے دی تھی اور عقل بھی" پھر آواز خداوندی آتی ہے"انسان کے لیے وہی کچھ ہے

جسکی وہ سعی کرتا ہے" پھر رب تعالیٰ فرماتا ہے" خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو 

خود آپ اپنی حالت کو بدلنے کا" ۔

69 سال میں "پاکستان " (45 سال بعد ہی 1971میں ٹوٹ گیا اور بنگلہ دیش بن گیا اور اب پاکستان بنگلہ دیشی

وفد کی آمد پر اسکو 21 توپوں کی سلامی دیتا ہے اور 2 ترانے پاکستانی اور بنگلہ دیشی گائے جاتے ہیں اور 

بنگلہ دیش کے جھنڈے کو سلامی بھی دی جاتی ہے یہی سفارتکاری کے آداب ہیں۔ یہ الگ بات ہے ان دلوں پر 

کیا بیتی ہے جوآج بھی بنگلہ دیش کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں کیمپوں میں پڑے، سسک،بلک رہے ہیں اور ہو 

بھی کیسے کیمپ میں پڑے ان پاکستانیوں سے محبت کسی کو بھی نہیں تو درد کا احساس کیسے ہوگا ۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات خستہ قلعوں،عمارات اور تعمیرات کی ہو رہی تھی حیدرآباد کا پکا قلعہ، کچا 

قلعہ،جہانگیر کا مقبرہ،ہیرہ منڈی کی بنی ہوئی عمارتیں،لیاری کا بازار حسن،حیدرآباد کا بازار حسن، مکلی کا 

قبرستان اور ان قبروں پر آوازاں کتبے جس پر صدیوں پہلے کی تاریخ وفات آج بھی درج ہے اور صاف پڑھی

جا سکتی ہے،حیدرآباد کی انگریزوں کی بنی عمارتیں،نواب شاہ میں بنی ہندووں کی عمارتیں، کراچی کا گھنٹہ

گھر اور اسکا ہلتا پنڈولم،ماما پاری اسکول، کراچیک کیمرج کی عمارت، چرچ، مندر برنس روڈ پرعصمت چغتائی

کا گھر، کسٹم ہاوس اور اردگرد کی عمارتیں جن میں آج بھی افراد رہائش پزیر ہیں یہ کیوں نہ ٹوٹیں۔ کیا کاریگر 

ماہر تھے یا مٹیریل اچھا استعمال ہوا تھا یا ان سب کو بنا نے والوں کو پیسوں سے محبت نہ تھی یا ان کو حرام

کھانے کی تربیت نہیں دی گئی تھی یا انکی نیت میں کھوٹ نہیں تھا جو آج تک یہ عمارتیں اسی آن و بان کے 

ساتھ کھڑی ہوئی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے ان کو بنانے والے مسلمان بھی نہیں تھے اور وہ جنت میں بھی

نہیں جا سکتے مولوی حضرات تو یہی کہتے ہیں اور جا بھی کیسے سکتے ہیں جب مسلمان ہی نہیں تھے ۔

عمارتیں آج بھی قائم ہیں لوگ رہ رہے ہیں، خوش بھی ہیں اوربنانے والوں کو دعائیں بھی دیتے ہیں۔

اب میٹریل بھی اچھا استعمال ہوتا اوربنانے والے الحاج بھی ہیں اور متقی بھی مگر بسم اللہ بلڈنگ گر جاتی 

ہےنہ اسکا بلڈر پکڑا جاتا ہے نہ اسکو سزا ہوتی ہے ہاں رام داس حکمران ہوتا تو پکڑا جاتا ۔

اک عمارت 1947 میں ہم نے تعمیر کی تھی بنانے والا بہادر، سچا،کھرا نہ جھکنے والا نہ بکنے والا تھا جو

انگریز نہ خرید سکا تو پھر یہ عمارت 45 سال میں کیسے ٹوٹ گئی، تاریخ کے صفحے پلٹا گیا اور اسی لمحہ اک 

جگہ نظر ٹھر گئی ہٹ ہی نہیں رہی تھی بڑی کوشش کی نگاہ ہٹ جائے نہ ہٹ سکی میں رک گیا اور کر بھی کیا 

سکتا تھا نہیں نہیں!" یہ کسی وطن دشمن کی سازش ہے" قائد اعظم ایسا نہیں کر سکتے۔

پاکستانی ہوں اس لئے سازش کی بو بڑی جلدی سونگھ لیتا ہوں عادت سی پڑ گئی ہے ادہر کوئی واقعہ ہوا ادہر 

سازش کی بو آئی ۔

نظر ٹھہرنے کی بات کر رہا تھا جی ہاں! نظر ٹھر گئی"قائد اعظم محمد علی جناح" "بانی پاکستان" کے الفاظ

نظروں کے سامنے تھے"مجھے نہیں معلوم تھا، میری جیب میں کھوٹے سکے بھی ہیں"

یہ الفاظ سن کر سمجھ آ گیا عمارت کیوں کمزور بنی تھی اور کیوں ٹوٹ گئی، ملبے میں کتنے افراد مرے اسکا 

تعین ہی نہیں کیا جا سکتا 2016-9-8 کوقائد اعظم کے یہ الفاظ دیکھ کر سب کچھ سمجھ آ گیا ۔

شکر یہ یہ وہ الفاظ ہیں جو"بانی پاکستان"محترم محمد علی جناح کے ہیں ورنہ میں دہر لیا جاتا ۔

ان الفاظ کے بعد 1947 سے 2016 تکا جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے سب سمجھ میں آ رہا ہے ۔ "شکریہ قائداعظم"


Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"