"الطاف حسین حق ہے"




  "الطاف حسین حق ہے"

الطاف حسین اک نظام کےخلاف"سالاراعظم"ہیں اور اس کےسپاہی اس نظام کا ہراول دستہ جس نے اپنے سفر 

کاآغا11جون 1976 کو کیا اوراس ملک میں نافذ نظام کےخلاف پرچم حق بلند کیا۔ للوگ آتے گئےاورقافلہ بنتا گیا۔

سالارقافلہ نے ابتدا میں ہی بتا دیا جو اس قافلہ میں آنا چاہے آ جائے مگر سوچ لے راہ پر خطر ہے سوچ کے آنا

راہ میں کانٹے بچھے ہوئے ہیں پیر لہولہان ہو جائیں گے،تحریک ضمانت نہیں کرا سکے گی سوچ لو پھر آنا۔ 

یہ بازی عشق کی بازی ہےجو چاہو لگا دو ڈر کیسا۔ گر جیت کئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

ارادے پرعزم ہوں توراہ کی رکاوٹیں خود بخود ہٹ جاتی ہیں،جیل،کوڑے۔ چیرے۔ تشدد۔پ ھانسی۔ سڑک پر پڑی

لاشیں دولت کوئی بھی راستہ نہیں روک سکتا اوریہی ہوا۔ کراچی یونیورسٹی سے لیکر MQM تک کا سفراور 

نشتر پارک سے لیکر 31 اکتوبر لال قلعہ۔علیگڑھ ،قصبہ میئر سے لیکر سینٹ سا سفراپنوں کی بے وفائی سے

لیکر اسٹبلشٹمنت کی سازشیں،ضناح پور سے لیکر لندن تک کی ہجرت اور وہاں سے آج تک تحریک کو چلا رہے 

ہیں اور تحریک کے کارکنان ان کی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں اور انشااللہ کرتے رہیں گے حالات کچھ ہی ہوں۔

آج شہداء کی یادگار پر یہی دیکھنے اور شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے،فاتحہ پڑھنے جب پہنچا تو ایسا لگا

پاکستان پر کسی دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہو چاروں اطراف کے راستے سیل کر دیے گئے،مرد تومرد

خواتین کو بھی روکا جا رہا تھا اور ملک کے سیکوریٹی ادارے جن کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے 

وہ عزیزآباد۔ لیاقت آباد،حسین آباد چاروں طرف ہاتھ میں گن لئے اور گنوں کا رخ ایم-کیو-ایم کے کارکنان کی 

طرف کئے بڑی مستعدی سے چوکس کھڑے اپنے فرئض ادا کر رہے تھے اور تو اور یادگار شہداء کے اندر

 شہداء کی قبروں کے پاس کھڑے تھے پھر آنکھ نے منظر دیکھا خواتین کو روک لیا گیا اور ملک کے ادراے 

کے جوان ۔خواتین سے مذاکرات پر مجبور ہو گئے،تاریخ میں یہ تو دیکھا اور پڑھا ہے کہ مرد مرد سے مذاکرات

 کرتے ہیں مگر آج یہ بھی دیکھا ملک کے سیکورٹی ادراے خواتین سے مذاکرات کر رہے تھے یہ آج دیکھ لیا 

اطاف حسین کی بہنیں بضد تھیں کہ وہ اپنے بھائیوں کی قبروں پر ضرور جائیں گی بھلے گولی مار دو لے جاؤ ۔

آنکھوں نے یہ بھی دیکھا مرد الطاف بھائی کی بہنوں کے آگے جھک گئےاور فضاء الطاف حسین کے نعروں 

سے گونج اٹھی یہ اتنے شہداءالطاف حسین کے ساتھی اپنے قاّئد الطاف بھائی پر قربان ہو گئے ۔

یہ تو صرف چند کارکنان ہیں جو ماروائے عدالت قتل اورظالموں کے ہاتھوں شہید ہو گئے ارے صرف یہ کیا 

15000 کارکنان اورہیں اوراب تو ان کی تعداد میں ہزاروں کا اضافہ ہو چکا ہے اور اتنے میڈیا ٹرائیل،تشدد کے 

بعد بھی یہ" فریڈم فائیٹر" اس فرسودہ نظام کے خلاف برسر پیکار ہیں اور آزادی چاہتے ہیں اس فرسودہ نظام 

سے اوراک ایسا نظام چاہتے ہیں جو ملک کے رہنے والے 98 فیصدعوام کے لیے ہو اورعدل۔ 

تعلیم،صحت،روزگار سب کے لیے ہو بونے کی آزادی۔ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی آزادی۔

یہاں تو آنکھیں  کچھ  اور ہی منظر دیکھ رہیں تھیں ۔ پاکستان کے نہتےعوام جن میں م بزرگ جن کے ہاتوں میں

 پھولوں کے گلدستے تھے اور سب بالکل پر امن تھے نہ ہاتھ میں پتھر،نہ لاٹھی تھی ہاتھ میں پھولوں کے 

گلدستے تھے جو وہ اپنے بیٹوں،بھائیوں،شوہروں کی قبر پر چڑھانے کے لیے لائیں تھی مگر ان سے یہ حق 

بھی بزور طاقت چھیننے کی کوشیشیں کی جا رہیں تھیں اور کوئی پرسان حال نہ تھا۔

جوان اداروں کےاہلکارواں سے یہ پوچھ سکتا تم ان کو اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول اور فاتحہ پڑھنے سے 

کیوں روک رہے ہو مگر یہ پاگل،دیوانے بڑھتے رہے اسلئے کہ یہ الطاف حسین کے جانثاران تھے جو موت کو

گلے لگا کر آئے تھے پھر آنکھوں نے یہ منظر دیکھا "حق جیت گیا باطل ہار گیا" اور یہ دیوانے قبروں پر پھول 

اور دعا کر کے ہی واپس اپنے گھروں کو چل دیئے نئے عزم و ولولہ کے ساتھ اور یہ ورد کرتے رہے ۔

بے شک اللہ جس کو چاہےعزت دے اورجس کو چاہے ذلت دے ،بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ کوئی شک نہیں۔








  














Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"