چھوٹے کی کہانی

                                                                           چھوٹے کی کہانی
میری بائیک خراب ہو گئی اور جانا بھی ضروری تھا کیا کروں سمجھ نہیں آ رہا تھا مرتا کیا نہ کرتا
مکینک کی دوکان کی طرف چل دیا۔ 
السلام و علیکم کیا حال ہے استاد ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں ٹھیک ہوں ؟
 کیا ہوگیا استاد پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ۔

ارے لمبو ادھر آ آیا استاد دیکھ بھائی کی گاڑی کوچھا استاد چھوٹا پانہ لیکرگاڑی کھولنے لگا ۔
استاد سمجھ نہیں آ رہا تم آ جاؤ استاد نے چپل پھینککے ماری مر گیا استاد لمبو چھوٹے کی آواز
آئی کمبخت لگا نہیں ہے اور چیخ اتنا رہا ہے ۔

استاد نے آواز لگائی 10 کا پانہ لا استاد یہ لو گیئر بکسس کھول اسٹارٹ کر خاک اسٹارٹ ہوگی ۔

کیوں استاد لمبو بولا اک زور کا تھپڑ پڑا استاد چھوڑو کیوں مار ریے ہو بچہ ہے بھائی اسکی
بھلائی کے لیئے کیا مطلب بھائی مجھے اسکو آگے لے کر جانا ہے لڑکا اچھا ہے بس پالش
کی ضرورت ہے غریب کا بچہ ہے میں چاہتا ہوں یہ بھی میری طرح کا کاریگر بنے نام کرے 
میرا اک بات بتاؤ گے ہاں ہاں پوچھو آپ یہ بتاؤ کتنے شاگرد ہیں تمھارے ارے صاحب کیا بتاؤں
بہت ہیں آپ دیکھتے ہیں اپنے بچوں کی طرح رکھتا ہوں آپ تو دیکھتے ہی ہیں پھر کہاں چلے

جاتے ہیں بس یہ دو چار نظر آ رہے ہیں اور وہ چھوٹو،موٹوارے ہاں احمد کہاں گیا ارے صاحب
کیا بتاؤں اپنا پیٹ ننگا ہوتا ہے پالا بوسا اور تو اور گلے کی چابی بھی دے دی تھی کبھی حساب
نہیں مانگا پلگ کھولنا نہیں آتا تھا اے ون مکینک بنا دیا تھا سوچا تھا اب دوکان اس کو دے دونگا
اور آرام سے بیٹھ کے کھاؤں گا مگر کام آ گیا ۔ 
بچے چھوٹے استاد کہنے لگے کام سیکھا 
لمبو ماسٹر دیکھا کیا ٹور ہے اب میں بھی استاد ہو گیا ہوں دیکھو بچے استاد کہ رہے ہیں ۔

ماسٹر نے کہا ابے تو کہاں سے استاد ہو گیا استاد تو وہ رہا جس نے تجھے استاد بنایا ماسٹر بس
تھوڑے دنوں کی بات ہے وہ دیکھی ہے دوکان وہ کونے والی بات کر لی ہے میں نے استاد کی
ٹکر پر کھولوں گا اور جب گاہک استاد کے بجائے میرے پاس آیا کریں گے پھر پتا چلے گا استاد
کو میری اہمیت سارا کام ٹھپ ہو جائے گا ارے پاگل اس کو کہ رہا ہے جس نے تجھے یہ سب دیا ۔

ماسٹر کیا دیا استاد نے دیکھتے نہیں کبھی چپل مارتا ہے کبھی تھپڑ پیار بھی تو کرتا ہے ۔ 
 اولاد کی طرح  پالا ہےخود بعد میں کھاتا ہے تمھیں پہلے کھلاتا ہے اور گھر سے 
کھانا لاتا ہے تمھارے لیئے کون کرتا ہے ایسا کبھی سوچنا بھی نہیں ۔
 یہ بتا دوکان لینے کی کہ رہا ہے پیسے ہیں اتنے تیرے پاس ماسٹر وہ اپنے شاہ جی ہیں نہ
 جنکا استاد سے کل پھڈاہوا تھا وہ دلوا ریے ہیں ۔

 ایڈوانس اور دوکان میں سامان بھی وہی ڈلوائیں گےاور اک سال کا کرایہ بھی وہی دینگے
 میری بات ہو گئی ہےکہ رہے تھے بتانا نہیں کسی کوکس نے دلوائی ہے دوکان ۔

ماسٹر تم اپنے آدمی ہو اس لئے بتا رہا ہوں استاد کو پتا نہ چلے اور بچے بھی شاہ جی 
لا کر دینگے پاگل استاد کی برابری کرتا ہے ارے برابری ابھی پتہ ہی نہیں ماسٹر تمھیں
ابھی تو میں جا رہا ہوں ۔

اور وہ جو 6 بچے ہیں نہ وہ بھی میرے ہیں میں نے کہا ہے استاد بہترین کاریگر ہے
 جی جی کرتے رہو میری طرح جب استاد تمھیں سب سیکھا دے اور بچے میری طرح
تمھیں چھوٹااستاد کہنے لگیں سمجھ جانا استاد نے سب سیکھا دیا ۔ چیتا بنا دیا ہے
میری طرح تو میرے پاس آ جانا لیکن یاد رکھنا کسی کو استاد نہیں کہنے دونگا  ۔
 استاد میں ہونگا جو مانگو گے ملے گا استاد سے زیادہ تنخواہ دونگا 
ماسٹر یہ کام میں نے جبھیشروع کر دیا تھا جب مجھے معلوم ہوگئے تھے استاد 
کے سارے راز ۔
ابے کل تک استاد جی استاد جی کرتا تھا آج استاد جی سے استاد ہو گیا ۔

ارے ماسٹر اگر ایسا نہ کرتا تو کیسے بنتا استاد ابے لمبو سوچ کل تیرے ساتھ تیرا 
شاگرد ایسا کرے تو تو کیا کرے گا ماسٹر ٹانگیں توڑ دوں گا ان کی کیوں
،ماسٹر کیا بچے ہو تم ۔

سارا کام میں سیکھاؤں گا دن رات ایک کروں گا اور فائدہ اٹھائے کوئی اور کیوں ؟
ابے تو جو اپنے استاد کو ہاتھ دکھا رہا ہے ماسٹر اسی کو کہتے ہیں استادی اور
کتنا مزہ آئے گا مجھے جب استاد رو رہا ہوگا بیٹھ کر اور میں سامنے دوکان سے اسے
روتا دیکھ کےہنسوں گا اور ہاں ماسٹر تھارے لئے خاص رعایت ابے مجھے لالچ دے رہا
ہے ۔ میں 30 سال سے تیرے استاد سے ہی کام کرا رہا ہوں ۔

لمبو کو دیکھ کے سوچ رہا تھاجس کو بچوں کی طرح پالا کھلایا پلایا اور استاد تو کہ رہا تھا 
اب دوکان بھی اس کو دے کر آرام کرے گا ابے لمبو ایسا نہ کر ذلیل ہو جائے گا وہ استاد ہے
تیرے جیسے پتہ نہٰیں کتنے آئےچلے گئے  ۔ 

ایسا نہ کر ماسٹر کیسے نہ کروں ۔ شاہ صاحب نے ایڈ وانس دے دیا ہے سامان کل آ جائے گا 
2 سے دوکان شروع کرنی ہےاستاد کو بتا یا تو نے ماسٹر استاد کو بتاؤں گا نہیں ۔
جب سارا کام میرے پاس آئے گا نہ استاد بھوکا مرے گا جب خود پتہ چل جائے گا  ۔
ابے پاگل ہے تو میں تجھ جیسے کتنے آئے، نمک حرام جس تھالی میں کھایا اس مٰیں چھید ۔

استاد کوبتا کر دکھ نہیں دینا چاہتا تھا میں نے استاد کو آواز لگائی استاد تم کرو
اک بات بتا اگر تیرا یہ شاگرد چلا جائے تو ۔
استاد نہیں ماسٹر یہ ایسا نہیں ہے مجھے چھوڑ کرنہیں جائے گا ۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"