انسان اور شیطان ازل سے ابد تک

انسان اور شیطان ازل سے ابد تک
مجھے فخر ہے میں انسان ہوں قطع نظر اس کے کون کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے کس سے نہیں
کون کس کو مانتا ہے کس کو نہیں مانتا ۔ میں کے تو صرف یہ دیکھا گروہ صرف 2 ہیں ۔
اکا انسان کا گروہ دوسرا شیطان کا یا چلیں یوں کہ لیں اک اچھائی کا دوسرا برائی کا یہی دیکھا سنا ہے ۔
دونوں گروہ میں قابل اور اپنی فیلڈ کے منجھے ہوئے افراد موجود تھے اور ہیں مگر نہ معلوم کیا بات ہے
اچھائی کی ہمیشہ کامیابی ہوئی اور برائی کی شکست دنیا کیسے بنی اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں بیکار ہے ۔
قابلیت تو شیطان میں بھی ہے بہکا لیتا ہے اور انسان خطا کا پتلہ مگر انسان غلطی کرتا ہے ہو مان جاتا ہے
توبہ کرتا ہے اعر دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرتا ہے شیطان اڑ جاتا ہے اور وہ بھی چمار کی طرح ؟
انسان نکلا ہی نسیان سے ہے یعنی بھول جانے والا اسی لیے بار بار لوگ آئے اور چلے گئے سبق یاد دلا کے ۔
انسان نے پہلا قتل کیا اور کوئے کو دیکھا گڑھا کھود کے کچھ دبا رہا ہے انسان تھا سیکھ گیا مگر مارنے 
والا شیطان کہلایا اور آج تک کوئی ایسا نہیں جس نے قتل انسانیت کی مذمت نہ کی ہو اب تک وہی سبق ہے ۔۔
انسان نی سیب کو کرتا دیکھ کے کہا یہ نیچے کیوں گرا مگر اتنے انسانوں میں سے اک نے ہی کیوں سوچا
عقل تو سب کے پاس تھی پھر یک نے کیوں سوچا کیونکہ اس نے عقل کا سہارا لیا اور کشش ثقل 
دریافت ہوئی اور انسان اب تک فائدہ اٹھا رہا ہے مطلب یہ ہوا عقل سب نہیں کچھ لوگ ہی استعمال کرتے ہیں ۔
شیطان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ فساد برپا کرے نظام درہم برہم کرے،لڑائی جھگڑا ہو ،ماں کو باپ سے ،
بھئی کو بھائی کو اور وہ اس پر شرمندہ نہیں خوش ہوتا ہے دو لوگوں میں علیحدگی سر فہرست ہوتی ہے ۔
انسان انسان کے کام آنے کی سوچتا ہے اور شیطان اسپر غمگین ہوتا ہے تمام مذاہب ، نظریہ میں انا موت ۔
مگر شیطان کی نظر میں یہی اسکا مہلک ترین ہتھیار ہے طریقہ واردات یہ ہوتا ہے آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں ،
کان سن نہیں سکتے، پیر ساتھ نہیں دیتے چلتے ہوئے اور آخری عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے میں میں کی صدا ۔
انسان پھر عقل کے سہارے آگے بڑھتا ہے اور جب شیطان نہیں مانتا تو تمام بڑے بتوں کو توڑ کر برے بت
کے گلے میں ڈال دیتا ہے شیطان کہتا ہے یہ بے جان کیسے ایسا کر سکتے ہیں اسکا مطلب تم جھوٹے 
کبی رسی کو سانپ میں بدل کر انسان کو دھوکا دیتا ہے اور انسان جب پانی میں لکڑی مار کر سمندر میں
جاتا ہے تو انسان تو اپنے جوش ولولے سے سمندر پا کر لیتا ہے مگر شیطان کو یقین نہیں ہوتا ڈوب جاتا ۔
فرعون،شداد،ہٹلر، میسولینی کبھی بھی اچھے کرداروں کی وجہ سے نہیں جانے جاتے پتہ نہیں کیوں ؟
ایک مولوی پیرصاحب روز اللہ پر یقین کامل پر درس دیتے تھے کہتے اللہ پر ایمان ہو تو انسان پانی
سے بھی آرام سے گزر جاتا ہے بس یقین کامل ہونا چاہے مرید روز سنتا تھا اک دن دریا میں طغیانی 
آ گئی اور مرید کا گھر دریا کے دوسے کنارے تھا کوئی کشتی نہیں مل ہرئ تھی گھر جاتا سوچا پیر
صاحب روز کہتے ہیں میں اللہ کا نام لے کر اترتا ہوں مرید اترا اور دریا پار کر گیا دوسرے دن آ کے
پیر صاحب کو بتایا بہت خوش ہوئے بولے میں نہ کہتا تھا دیکا تم نے اس کو کہتے ہیں اللہ پر اعتماد ۔۔
بیوی نے ال دب کہا تمھارے پیر کتنے پہچے ہوئے ہیں اب تم روز بنا کشتی پانی میں سے گزر کے آ
جاتے ہو تمھارے پیر صاحب کی کل دعوت ہے ضرور لانا میں دعوت کی تیاری کرتی ہوں ٹھیک ہے ۔
دوسرے دن مرید نے پیر صاحب کو بتایاآج آپکی دعوت ہے رات کا کھانا میرے گھر کھائیں گے آپ ۔
ٹھیک ہے پیر صاحب تیار ہو کر چل پڑے دریا پہ پہنچے طوفان آ گیا مری دریا میں اتر گیا آئیے 
پیر صاحب پاگل ہو گیا ہے کیا دیکھتا نہیں ڈوب جاؤں گا آپ تو کہتے تھے یقین ہونا چاہیے میں بھی
تو گا رہا ہوں ارے پاگل تمھارا ایمان تھا میرا نہیں ہے میں تو ڈوب جاؤں گا وہ تو تمھارے لئے تھا ۔
ایسے ہی ایک پیر صاحب کو اللہ نے ہدایت دی ہےاور وہ سچ بات بتانے آئے ہیں ۔

ایک صاحب ملے کہنے لگے غدار اور وفادار کی پہچان معلوم ہے آپکو میں نے نفی نے جواب دیا
کہنے لگ منافق اور انسان میں فرق پتا ہے نہیں ۔میں بتا ہوں آپکو جی ارشاد غدار وہ ہوتا ہے جو
دشمن سے مل جائے اور وفادارشامل رہ کر غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے اور اصلاح کی کوششش ۔

منافق آستین میں بت چھپا کر رکھتا ہے اور ساتھ بھی رہتا ہے اور انسان منہ پر برائی کرتا ہے اور
حضرت علی کا قول ہے جس پر احسان کرو اس کے شر سے پناہ مانگو مفہوم یہ ہے تم تو گدھا
گاڑی چلاتے ہو جاہل ہو تمھیں کیسے پتہ ہاہاہاہا جاہل میں نہیں صاحب آپ ہیں ڈگری کو تعلیم آپ
کہتے ہیں سنیے اک گدھے پر کتابیں لدھی ہوئیں تھی اور آدمی کتابوں پر بیٹھا ہوا اک شخص نے
کہا کتنا بے وقوف ہے کتابوں پر بیٹھا ہوا ہے اک جاہل بھی بیٹھا ہوا تھا بولا کتابیں گدھے پرتو
واقعی لدھی ہوئی ہیں مگر تم یہ نہیں دیکھ رہے کتابوں پر گدھا بیٹھا ہوا ہے ۔

جواب ایسا تھا کوئی جواب نہ تھا کھسکنے میں بھلائی نظر آئی دل نے کہا جاہل تم ہو یہ نہیں ۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"