یہ روایات کہاں کھو گئیں 
معاشرہ روایات پر بنتا ہے، ہم بچے تھے،گھر والے ہوں باہر یا نہ ہوں ،محلہ کے لوگ نظر رکھتے تھے،محلہ کی بھابھی،خالہ،چاچی،دادی،بہن،بھائی نے کہا سودا لا دو کیا مجال منع کر دیں،واپس آئے تو خالہ بولیں بیٹا یہ لا دو پھر واپس۔اک دفعہ گھر والوں سے چھپ کے فلم دیکھنے چلے گئے،محلہ والوں نے دیکھ لیا، گھر آئے تو گھر والوں نے پٹائی کی،کہنے لگے تم سمجھتے ہو کچھ بھی کرتے رہو پتا نہیں چلے گا۔ محلہ میں کوئی بیمار ہو تو پورا محلہ پہنچ جاتا تھا،کوئی زخمی ہو تو سب فوری پہنچ جاتے تھے۔ مولوی تو ہمیشہ سرف واعظ کرتا تھا کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ مسجد میں موت کی خبر آنے کا مطلب ہے محلے والے کو پتا چل جائے کہ اب یس گھر کی ذمہ داری اب اہل محلہ کی ذمہ داری ہے،مگر مولانا اس پر بات ہی نہیں کرتا،پہلے محلے میں موت ہو جاتی تھی، اہل محلہ 3 دن کا کھانہ دال چاول،ناشتہ میں پاپا چائے،اب کسی کو کسی کی فکر ہی نہیں۔روایات کھو گئی ہیں،تعلیم ڈگری حاصل کرنے کا نام نہیں،تعلیم یافتہ کو دیکھتا ہوں بات کرتے ہوئے،ابے کہاں جا رہا ہے،ابے کھانا کھا لیا،ہم نے تو کبھی بڑے بھائی،بڑے چچا زاد،ماموں زاد سے بھی یار یا ابے کر کر بات نہیں کی،بڑی بہن،والدہ،والد کے سامنے اف بھی نہیں کیا،مجھے یاد ہے میری شادی ہوئی،اللہ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا،وہ بھی میجر آپریشن سے،نرس باہر لائی میں نے گود میں لے لیا،والدہ نے دیکھ لیا،وہ سنائی پورا وارڈ دیکھ رہا تھا اور میں چپ کھڑا والدہ کو سن ریا تھا،مگال نیہں تھی کچھ کہ سکتا،بہن،بھائی صاحب سب کے سامنے سنا دیتے تھے،آج تعلیم یافتہ، محلہ کے بڑوں کا سامنے سکریٹ پیتے نظر آتے ہیں۔نہ بڑوں کا ادب نہ لحاظ،مکافات عمل موجود ہے پھر انکے ساتھ ہیی ہوتا ہے تو کہتے ہیں آج کے بچے ادب نہیں کرتے،بھائی کیسے کریں۔جو بویا تھا وہی تو کاٹ رہے ہو،شکایت کس بات کی جو بو گے وہی تو کاٹو گے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"