1.  


    تاریخ کی ابتدا آدم سے ہوتی ہے ارو اللہ نے انسان کو خلیفہ نامزد کیا ہعنی پہلے راہنماء کا انتخاب کیا گیا ۔
    پھرآدم کی نسل بڑھنے کا طریقہ کار طے کیا گیا یعنی حوا کا انتخاب کیا گیا اور اسطرح تخلیق انسان کا وجود ہوا ۔
    آدم نے ایک نظریہ انسانیت متعارف کروایا یعنی آدم دنیا کا پہلے راہنما ہوئے اور انہوں نے نظریہ کو جنم دیا ۔
    تاریخ کو دیکھتے ہوئے طے ہو گیا کہ راہنماء یی نظریہ کو جنم دیتا ہے اور پھر اپنے نظریہ کو متعارف کرانے
    کے لئیے افراد کی تلاش کرتا ہے اور اپنے قریبی حلقہ میں اپنے نظریہ کی تشہیر کرتا ہے اور لبیک کہنے والے
    افراد پر نظر رکھتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کتنے افراد اسکے قریب آئے ہیں اور پھر جس شخص میں جو
    صلاحیت ہوتی ہیں وہ کام انکے سپرد کر دیا جاتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کتنے افراد آئے اور کتنے واپس چلے
    گئے اور پھر رہ جانے افراد جنکو وہ سمجھتا ہے صرف یہ افراد ہیں اور پھر اپنی تحریک کا آغاز کرتا ہے ۔
    نظریہ دینے والا جب دیکھ لیتا ہے لوگ اس کی بات کو سن رہے ہیں تو پھر اپنے لوگوں کی تربیت کا عمل شروع
    کرتا ہے اور دیکھتا ہے کون اس کے نظریہ کو سن رہا ہے،کون جان رہا ہے اور کون مان رہا ہےاور کون صرف
    اسکی شخصیت کی بنیاد پر اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے شامل ہوا ہے اور جو ہر مرحلے پر اسکے ساتھ
    رہے اور تکمیل تک ساتھ رہے ان پر ہی اعتماد کرتا ہے اس دوران آنے جانے گا کر آنا کا سلسلہ بھٰی جاری رہتا
    ہے اور پھر نظریہ تحریک ،انجمن یا اداراہ کی حیثیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اسی دوران نظریاتی افراد مختلف
    معاملات طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور نظریہ دینے والا ان پر نظر رکھتا ہے اسی دوران دوسرا گروپ
    ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے اور افراد کی انفرادی کمزوریوں کو بغور دیکھتا ہے اور ان کو ابھار کر ان
    کو خریدا جاتا ہے پھر بھی نہ رکیں تو تشدد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے،دولت،عورت اور مختلف طریقے اختیار
    کیے جاتے ہیں آدم نے نظریہ کا آغاز کیا اور اسطرح نظریہ دینے والا اور نظریہ وجود میں آیا پھر سلسلہ چلتا
    رہا اور پھر نظریہ دینے والے نے رہن سہن لباس، ہیتھیار درندوں سے بچنے کے لیے آگ ،تیر ،پتھر سے پتھر
    رگڑنے سے آگ پیدا ہونے والے اور بچاؤ کے طریقے بتائے اور طے ہوا خوراک ،رہنے کے لیے خطہ ۔ پہنے
    کے لیے لباس اور نفس انسانی یعنی فطرت کی تکمیل کے لیے افزائش نسل کے لیے شادی کے طریقہ کار کا
    انتخاب کیا ۔
    نظریہ دینے والے نے بتایا کہ اس دوران کس کس طرح کی مشکلات آتی رہیں گی اور اس سے کس کس ظرح
    بچا جا سکتا ہے اور ان کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے اور پھر یہ بھی تاریخ نے بتایا کہ صرف نظریہ دینے
    والا ہی صرف اپنے نظریہ پر قائم رہ سکتا ہے اور اگر وہ چاہے بھی تو اپنے نظریہ سے نہیں پھر سکتا کیونکہ
    اگر وہ پھر گیا تو پھر آئندہ کوئی بھی فرد نہ نطریہ اور نہ نظریہ دینے والے پر اعتماد کر سکتا ہے اور افراد
    پھر کسی پر بھی بھروسہ نہیں کریں گے ۔ منزل نہیں راہنما چاہیے ( تاریخ اور دلیل کے ساتھ ) جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog

کیا ہم آزاد ہیں؟

تاریخ کراچی

"غداری کے نہیں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹیے"