- تاریخ کی ابتدا آدم سے ہوتی ہے ارو اللہ نے انسان کو خلیفہ نامزد کیا ہعنی پہلے راہنماء کا انتخاب کیا گیا ۔پھرآدم کی نسل بڑھنے کا طریقہ کار طے کیا گیا یعنی حوا کا انتخاب کیا گیا اور اسطرح تخلیق انسان کا وجود ہوا ۔آدم نے ایک نظریہ انسانیت متعارف کروایا یعنی آدم دنیا کا پہلے راہنما ہوئے اور انہوں نے نظریہ کو جنم دیا ۔تاریخ کو دیکھتے ہوئے طے ہو گیا کہ راہنماء یی نظریہ کو جنم دیتا ہے اور پھر اپنے نظریہ کو متعارف کرانےکے لئیے افراد کی تلاش کرتا ہے اور اپنے قریبی حلقہ میں اپنے نظریہ کی تشہیر کرتا ہے اور لبیک کہنے والےافراد پر نظر رکھتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کتنے افراد اسکے قریب آئے ہیں اور پھر جس شخص میں جوصلاحیت ہوتی ہیں وہ کام انکے سپرد کر دیا جاتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کتنے افراد آئے اور کتنے واپس چلےگئے اور پھر رہ جانے افراد جنکو وہ سمجھتا ہے صرف یہ افراد ہیں اور پھر اپنی تحریک کا آغاز کرتا ہے ۔نظریہ دینے والا جب دیکھ لیتا ہے لوگ اس کی بات کو سن رہے ہیں تو پھر اپنے لوگوں کی تربیت کا عمل شروعکرتا ہے اور دیکھتا ہے کون اس کے نظریہ کو سن رہا ہے،کون جان رہا ہے اور کون مان رہا ہےاور کون صرفاسکی شخصیت کی بنیاد پر اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے شامل ہوا ہے اور جو ہر مرحلے پر اسکے ساتھرہے اور تکمیل تک ساتھ رہے ان پر ہی اعتماد کرتا ہے اس دوران آنے جانے گا کر آنا کا سلسلہ بھٰی جاری رہتاہے اور پھر نظریہ تحریک ،انجمن یا اداراہ کی حیثیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اسی دوران نظریاتی افراد مختلفمعاملات طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور نظریہ دینے والا ان پر نظر رکھتا ہے اسی دوران دوسرا گروپان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے اور افراد کی انفرادی کمزوریوں کو بغور دیکھتا ہے اور ان کو ابھار کر انکو خریدا جاتا ہے پھر بھی نہ رکیں تو تشدد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے،دولت،عورت اور مختلف طریقے اختیارکیے جاتے ہیں آدم نے نظریہ کا آغاز کیا اور اسطرح نظریہ دینے والا اور نظریہ وجود میں آیا پھر سلسلہ چلتارہا اور پھر نظریہ دینے والے نے رہن سہن لباس، ہیتھیار درندوں سے بچنے کے لیے آگ ،تیر ،پتھر سے پتھررگڑنے سے آگ پیدا ہونے والے اور بچاؤ کے طریقے بتائے اور طے ہوا خوراک ،رہنے کے لیے خطہ ۔ پہنےکے لیے لباس اور نفس انسانی یعنی فطرت کی تکمیل کے لیے افزائش نسل کے لیے شادی کے طریقہ کار کاانتخاب کیا ۔نظریہ دینے والے نے بتایا کہ اس دوران کس کس طرح کی مشکلات آتی رہیں گی اور اس سے کس کس ظرحبچا جا سکتا ہے اور ان کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے اور پھر یہ بھی تاریخ نے بتایا کہ صرف نظریہ دینےوالا ہی صرف اپنے نظریہ پر قائم رہ سکتا ہے اور اگر وہ چاہے بھی تو اپنے نظریہ سے نہیں پھر سکتا کیونکہاگر وہ پھر گیا تو پھر آئندہ کوئی بھی فرد نہ نطریہ اور نہ نظریہ دینے والے پر اعتماد کر سکتا ہے اور افرادپھر کسی پر بھی بھروسہ نہیں کریں گے ۔ منزل نہیں راہنما چاہیے ( تاریخ اور دلیل کے ساتھ ) جاری ہے
کیا ہم آزاد ہیں؟
کیا ہم آزاد ہیں؟ تحریر:کنور اسلم شہزاد قسط"اول اک لفظ ہے"غلام " اسکا مطلب ہے کسی کو خرید لینا اور خرید لینے والےغلام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کچھ بول سکے۔پوچھ سکے۔جو دل چاہے وہ نہ کر سکےاورمالک اسکو جوحکم دے بس بجا لائے۔ نہ چوں کرے نہ چرا بس کام کرتا ہے،پوچھنے کی اجازت نہیں یعنی"غلامی"کرتا رہے مار کھاتا رہے مگر یہ "حق" کس کو حاصل ہے تو لغت میں اک لفظ "مالک" نظر آیا جو صاحب حیثیت ہوتا ہے یعنی "سرمایہ دار"سردار" اور یہ سردار حکم چلاتا ہے جو اسکے غلام ہوں پتہ چلا یہ اک ذہنیت کا نام ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹے تو معلوم یہ دو ذہنیت کےنام ہیں"اک مالک"اک غلام" دو نظریے کےنام۔،تحریک کے نام آقا یعنی قید کرنےوالا اور غلام اسکا حکم بجا لینے والے کا نام اسطرح معلوم ہوا یہ آزاد اور آزادی الفاظ کیسے وجود میں آئے،کیوں آئے؟کب آئے اور انکی ضرو
Comments
Post a Comment